اکتوبرکچھ باتیں کچھ یادیں
لگتا یوں ہے، جیسے حکومت کپکپا رہی ہے، اسٹیج پر مختلف کھیل کھیلے جارہے ہیں، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہارنے والے نے کچھ نہ کچھ کھونا ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات جیتنے والے کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا، یوں تو اکتوبر کے ساتھ بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں، یادوں کے جھروکوں سے کچھ ایسے واقعات ہر لمحے جھانکتے رہتے ہیں، من حیث القوم ہم کہاں کھڑے ہیں، سکڑتی معیشت، بڑھتی آبادی، ہر شخص کی کم ہو تی آمدنی ِہچکولے کھاتا اسٹاک ایکسچینج، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سونامی، روپے کی گھٹتی قدر، یوں سمجھ لیجئے کہ میر تقی میر کے مطابق ناکامی، عشق یا کامیابی۔ دونوں کا حاصل۔ خانہ خرابی، لیکن حکمرانوں کا نشہ ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا، جبکہ ان کی قبولیت کا گراف زمین بوس ہورہا ہے۔
یوں تو اکتوبر کے حوالے سے بہت سی باتیں اور یادیں ہیں، سب سے پہلے 22سال پہلے کا ایک صفحہ پلٹتے ہیں۔ 12اکتوبر 1999ء کی سہ پہر5بجے جب سورج مغرب میں غروب ہونے کی تیاری کررہا تھا۔ اس فلم کا مرکزی اسٹیج شہر قائد میں سجنے کو تیار تھا۔ سب سے پہلے5بجے کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کو ان کے سٹاف افسر نے ٹیلی فون پر آگاہ کیا کہ خبروں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے دورہ سری لنکا پر گئے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائر کرکے ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، دوسرا فون وزیراعظم ہائوس سے جنرل عثمانی کو موصول ہوا، جس میں ان سے کہا گیا کہ وزیراعظم کو آپ کے بیٹے کی علالت پر انتہائی تشویش ہے اورا گر آپ چاہیں تو سرکاری اخراجات پر بیرون ملک ان کا علاج کرایا جاسکتا ہے، تھوڑی دیر بعد جنرل عثمانی کو راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل محمود کا فون موصول ہوا، جنرل عثمانی نے ان سے پوچھا کہ ایسے کسی امکان کے متعلق جنرل مشرف نے انہیں ہدایات دی تھیں، پھر دونوں جنرلوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کارروائی کا آغاز ہونا چاہئے، اس سے پہلے جنرل محمود چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز کو فون کرچکے تھے، وہ فوراً جی ایچ کیو پہنچے، پھر انہوں نے پشاور کے کور کمانڈر سے بات کی، جو اس وقت قائم مقام چیف آف آرمی اسٹاف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
دوسری طرف جنرل عثمانی فوری طور پر کراچی ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوگئے، جہاں سری لنکا سے واپسی پر جنرل پرویز مشرف کے طیارے نے لینڈ کرنا تھا، جنرل عثمانی نے ایئر پورٹ پہنچتے ہی جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل افتخار کو فون کیا کہ جلد از جلد ایئر پورٹ پہنچیں، اسی اثناء میں آئی جی سندھ رانا مقبول اور ڈی آی جی کراچی اکبر آرائیں ایئر پورٹ پہنچ چکے تھے۔
ڈی آئی جی اپنے باس سے کہہ رہے تھے کہ فوج آچکی ہے۔ اس لئے ہمیں پولیس کو کسی بھی کارروائی کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ اس سے ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے، اس گفتگو کو سن کر جنرل عثمانی وہاں سے چند قدم دور چلے گئے۔ ابھی وہ جنرل افتخار کو دوبارہ فون کرنے ہی والے تھے کہ جنرل افتخار، جنرل عثمانی کے قریب آئے۔ جنرل عثمانی نے جنرل افتخار سے کہا کہ طیارے کی لوکیشن معلوم کرو۔ اس دن تمام افسران مسلح تھے۔ جنرل افتخار نے کہا سر طیارے کو نواب شاہ جانے کے لئے کہاگیا ہے۔ پائلٹ سے بات کرائو۔ دوسری طرف پائلٹ کی آوازسنائی دی۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔ تمہیں کراچی ایئر پورٹ پر اترنا ہے۔ جنرل افتخار نے کنٹرول ٹاور کا کنٹرول سنبھال لیا۔ میں جنرل پرویز مشرف سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ چند لمحوں کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آواز گونجی۔ افتخارکیا صورتحال ہے۔ جنرل مشرف نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔ سر ہم نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ آپ کا طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر اترے گا۔ جنرل مشرف اور جنرل افتخار کے پرانے تعلقات تھے۔ جنرل مشرف نے پائلٹ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا، فکر مند نہ ہوں۔
جنرل افتخار جیسا کہہ رہے ہیں کرو۔ یہ بات بھی قابل ذکر تھی کہ اس طیارے میں کراچی گرائمر اسکول کے200سے زیادہ طلبہ و طالبات بھی سفر کررہے تھے۔ جو وکیشن گزارنے تفریحی ٹور پر سری لنکا گئے ہوئے تھے، طیارہ جیسے ہی کراچی ایئر پورٹ پر اترا، جنرل مظفر عثمانی نے جنرل مشرف کو سلیوٹ کیا۔ پھر وہ طیارے سے نیچے آئے۔ جنرل مشرف نے کور کمانڈر کراچی سے کہاکہ میری اہلیہ طیارے میں ہیں، کیا وہ باہر آسکتی ہیں، جنرل عثمانی نے قریب کھڑے ہوئے اپنے اسٹاف کے میجر سے کہاکہ بیگم صاحبہ کو باہر لایا جائے۔ پھر دونوں جنرلز وی آئی پی لائونج میں آ ئے، جہاں پر پہنچتے ہی جنرل مشرف فریش ہونے باتھ روم میں چلے گئے۔ جب وہ باہر آئے تو جنرل عثمانی نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے سنجیدگی سے کہاکہ سر مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں آپ کو گرفتار کرلوں۔ جنرل مشرف کے چہرے پر ایک رنگ آیا، لیکن دوسرے ہی لمحے جنرل عثمانی نے کہاکہ سر حالات پوری طرح قابو میں ہیں، پھر جنرل مشرف اس کار میں بیٹھ کر کور ہیڈ کوارٹر روانہ ہوئے، جس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا پرچم لہرارہا تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے جنرل پرویز مشرف بہت سے اہم فیصلے کرچکے تھے۔
اسلام آباداور کراچی سے پاکستان ٹیلی ویژ ن کی نشریات کو بند کردیاگیا تھا، پورے ملک میں غیر یقینی کی صورتحال چھائی ہوئی تھی، کرنل اشفاق نے جنرل پرویز مشرف کی تقریر لکھی، فیصلہ کیاگیا کہ وہ کمانڈو ڈریس میں تقریر کریں گے۔ فوری طور پر جو جیکٹ دستیاب ہوئی۔ وہ سائز میں بڑی تھی۔ جس میں پنیں لگا کر پہنایا گیا۔ پھر نام کی شناخت بیج بھی جنرل صاحب کی اپنی نہیں تھی۔ تقریر دوبارہ ریکارڈ کی گئی پہلی بار میں ان کے چہرے پر تھکاوٹ نمایاں تھی۔ انہیں جوس پیش کیاگیا۔ پھر دوبارہ خوش اسلوبی سے اس تقریر کی ریکارڈنگ مکمل ہوئی۔
دوسری طرف 9بجے رات جنرل محمود وزیراعظم ہائوس اسلام آباد پہنچے، انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے سامنے ایک کاغذ رکھا کہ اس پر دستخط کردیں، جس میں اسمبلی توڑنے اور اقتدار فوج کے حوالے کرنے کے متعلق مسودہ تحریر تھا۔ اس کے بعد انہیں گرفتارکرلیاگیا۔ دوسری طرف نواز شریف کی جانب سے نامزد کردہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الدین بٹ کو اس وقت گرفتا ر کرلیاگیا تھا جب وہ اپنا چارج لینے جی ایچ کیو پہنچے تھے۔ ایک دور ختم ہوگیا، قومی اسمبلی میں تین چوتھائی اکثریت رکھنے والی حکومت دھڑام سے جاگری تھی۔ ایک بج کر پانچ منٹ پر اس فلم کا جنرل مشرف کی تقریر پر اختتام ہوا اور وہ پاکستان کے سیاہ سفید کے مالک بن گئے۔