اکتوبر…کچھ باتیں کچھ یادیں (1)
27برس پہلے شاید یہی اکتوبر کا مہینہ تھا، میں علم، فہم اور عقل والے اس شخص کے سامنے بیٹھا تھا، وہ شخص جو پاکستان کی محبت میں گرفتار تھا۔ وہ آج خلاف معمول چاق و چوبند نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی، تو بجھے ہوئے لہجے میں بولے۔ ہم نے بڑے دل گرفتہ انداز میں بھارت چھوڑا تھا۔ لیکن شادمانی کا یہ احساس ضرور تھا کہ ایسے وطن جا رہے ہیں کہ جو ہمارا اپنا ہو گا۔ جہاں ہمارے سجدے آزاد ہوں گے۔ ہماری مسجدیں اور درسگاہیں محفوظ ہوں گی۔ میں نے بڑے ادب سے پوچھا۔ کبھی آپ کے ذہن میں آیا۔ کہ شاید یہ غلط فیصلہ ہو گا۔ وہ برجستہ بولے۔ ہرگز نہیں میرے بڑے حمید بھائی نے مجھے روکا ضرور تھا لیکن دیکھیں خدا کا کرم ہے۔
وطن کا عشق اور اپنے لوگوں کی محبت اور سب سے بڑھ کر خدا کا کرم۔ میں نے جس ادارے کی بنیاد 1200روپے سے رکھی تھی آج آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ حکیم سعید مجھے کئی بار ہمدرد یونیورسٹی اور اپنی قائم کردہ مدینۃ الحکمت لائبریری بھی لے گئے۔ میں نے بڑی ذرخیز اور شاندار لائبریریاں دیکھی ہیں لیکن مدینۃ الحکمت دیکھ کر آنکھیں چکا چوبند ہو گئیں۔ نادر کتب کا خزینہ اور رسائل اخبارات اور تمام دلچسپیوں اور موضوعات پر نادر نسخے۔ یہ سب حکیم صاحب کی شب و روز محنت اور کاوش کا نتیجہ تھا۔ جب میں نے اس اخلاق اور آگہی کے اس بلند قامت انسان سے پوچھا۔ آپ نے یہ کمال کیسے کیا۔
کہنے لگے ہم تو بس محنت کر رہے ہیں، لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک۔ پھر حکیم صاحب کا کراچی کے نوجوانوں پر اتنا بڑا قرض ہے۔ جسے وہ نہیں چکا سکتے۔ انہوں نے کراچی کی متعدد پروفیشنل یونیورسٹیوں کو چارٹر کی اس وقت منظوری دی، جب وہ سندھ کے گورنر تھے جب بھی حکیم صاحب سے ملا وہ وطن عزیز کے عمومی حالات پر دل گرفتہ نظر آئے۔ عمومی حالات، عوام کے مسائل، غربت کے دلدل میں ڈوبتی آبادی، ملک میں دہشت گردی کے واقعات، جرائم، صحت اور تعلیم کے معاملات غرض یہ دگرگوں صورتحال دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ دل بڑا کڑھتا ہے پھر غالباً یہ بھی اکتوبر کا مہینہ تھا ایک غمناک اور خنک صبح بیدار ہوئی، آنکھ کھلی تو ہر طرف ایک اندوہناک خبر سن کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، ٹی وی پر اس خبر کو سن کر لوگ سناٹے میں آ گئے تھے، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ اس وقت کے ایک بہت بڑے انسان کی تصویر چھپی تھی، خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر سوال کر رہی تھی۔
میرا جرم کیا تھا، مجھے کیوں مارا گیا، میں تو مرہم رکھنے والا شخص تھا، پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا۔ ہم نے ایک ایسے انسان کو مار دیا، جس کی آنکھوں میں خواب جگنو کی طرح چمکتے تھے۔ قاتلوں کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ زمین پر بھی وہ عبرت کا نشان بنیں گے کہ روز حساب وہ نہ جانے قدرت کے کس غیظ و غضب کا شکار ہوں گے۔ سیدھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بونوں کا ملک ہے، بونوں کے معاشرے میں جرم ہوتے ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو عبدالستار ایدھی پر بھی الزام عائد کرتے تھے۔ اس شخص پر الزام دھرنے میں ذرا تکلف نہیں کرتے تھے، جس نے اپنی پوری زندگی انسانی فلاح کے لئے گزار دی۔ ہم قائد اعظم کی ہمشیرہ پر تہمتیں لگاتے نیں ہچکچائے۔ ہم نے دھاندلی کر کے انہیں الیکشن ہروا دیا۔
چند روز کی تو بات ہے اسی قوم کا محسن قائد اعظم کے بعد اس ملک کا سب سے بڑا انسان مایوسی اور بددلی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کی بڑائی کے لئے مجھے نہ کوئی تاویل گڑھنے کی اور نہ ان کی خدمات کو ثابت کرنے کسی دلیل تراشنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے دنیا کے نہ جانے کتنے تحقیقاتی ادارے کتنے انسٹی ٹیوٹ اور سائنسی درسگاہوں کے دروازے کھلے تھے، جس کے لئے دنیا بھر میں نہ جانے کتنے مواقع موجود تھے، لیکن ملک کی محبت میں اس کا پاگل پن دیکھیے کہ تمام ترغیبات کو نظر انداز کر کے اس نے دن رات ایک کر کے پاکستان کو دنیا میں ایٹمی قوت بنا دیا۔
اکتوبر کے ماہ میں یہ عظیم سائنسدان ہم سے بچھڑ گیا۔ لیکن ہم اتنے محسن کش ثابت ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کو آزاد زندگی گزارنے کے لئے عدالت عظمیٰ کے در پر دستک دینی پڑی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر ویکلی آف انڈیا نے لکھا کہ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح پاکستان کی خدمت کی اور خود کو مادر وطن کے لئے وقف کر دیا۔ تحریک لبیک کے بانی علامہ خادم حسین رضوی مرحوم نے جب ڈاکٹرعبدالقدیر سے ملاقات کی تو عقیدت میں ان کے ہاتھ چوم لئے، جب ان سے اس والہانہ عقیدت و محبت کا سبب پوچھا گیا تو علامہ مرحوم نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ جس نے تیر بنایا اور جس نے جنگ و جہاد میں اسے چلوایا اور چلایا۔ وہ سب جنت میں جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب رخصت ہوئے تو میری طرح ہزاروں لوگوں نے اپنے الفاظ میں انہیں گلہائے عقیدت پیش کیا۔ لاکھوں چاہنے والوں کے آنسو نکلے اور کروڑوں اس موقع پر انہیں یاد کر کے غمزدہ ہو گئے۔ لیکن بے شمار لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ہم نے اپنے ہیرو کو مجرم بنا کر ٹی وی پر معافی کے لئے پیش کر دیا۔ ہم آپ کو ایٹمی ٹیکنالوجی کو پورے مڈل ایسٹ میں پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر آپ باز نہ آئے تو ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنا دیں گے۔
امریکہ نے پاکستان کو ایٹمی ری ایکٹر فراہم کرنے پر نہ صرف فرانس پر سفارتی دبائو ڈالا۔ بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر فرانس نے ایٹمی ری ایکٹر فراہم کرنے کی کوشش کی تو وہ ری ایکٹر لے جانے والے جہاز کو سمندر میں ڈبو دے گا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر نے سینٹری فیوج طریقہ کار سے بم بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو امریکیوں کو پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ڈاکٹر خان نے بڑی تیزی سے اپنے منصوبے پر کام کیا۔ (جاری ہے)