کراچی کا المیہ اور سندھ کا مسئلہ
حالیہ بارشوں نے کراچی کیلئے نئے خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ ہوا سو ہوا، درجنوں جاں بحق ہوئے، لاکھوں کو یہ فکر کہ پانی اتر بھی گیا تو نئی مشکلات سے کیسے نمٹیں گے۔ کراچی کی شاہراہوں، علاقوں، محلوں اور گلیوں میں آپ کو ایک سایہ چلتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی پیشانی پر لکیر در لکیر سوالات درج ہیں وہاں سند ھ کے طول و عرض کے پورے چہرے پر آپکو غربت، بے روزگاری، مفلسی اور جہالت کے اتنے زخم نظر آئیں گے جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
چند دنوں میں ہی سندھ بھر میں خصوصاً کراچی میں بارشوں کے بعد کڑوی کسیلی باتیں اور سسٹم کی ناکامی پر تنقید کی بارش ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر حقائق کیا ہیں۔ آزادی کے وقت کراچی صرف ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل تھا۔ آزادی کا ترانہ بجا تو کراچی پاکستان کا دارالخلافہ ٹھہرا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سندھ انگریزوں کے قبضے میں آنے سے پہلے کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک خود مختار ملک تھا۔ کراچی کی تاریخ بھی 1845سے شروع ہوتی ہے۔ اس وقت کراچی سمندر کے کنارے مچھیروں کی ایک بستی تھی جس کا نام کولاچی تھا۔ بندر گاہوں کی تعمیر کے اس وقت کے انگریز ماہرین کو کیماڑی کا موجودہ حصہ کسی بندر گاہ کے لئے مثالی دکھائی دیا اور اپنے تسلط کے بعد انہوں نے اسے کلکتہ، سورت اور بمبئی کی بندر گاہوں کی طرح بنانا شروع کر دیا، یہاں سے باقاعدہ کراچی شہر کی ابتداہوئی۔
تقسیم ہند کے بعد سمندری راستے کے ذریعے ہجرت کرنے والوں میں غالب اکثریت کا ٹھکانہ کراچی ہی بنا۔ مچھیروں کی بستی اور چند ہزار کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد کا مسکن یہی شہر تھا۔ آزادی کے بعد دونو ں طرف سے اس شہر میں مائیگریشن ہوئی۔ دوسری طرف کراچی میں آباد ہونے والے مہاجرین سمندری راستے کے علاوہ راجھستان کے ذریعے جوق در جوق اس شہر کی طرف امڈ پڑے جسے جہاں جگہ ملی اس نے وہیں ڈیرے ڈال دیئے یہاں تک کہ پارک، مندر، اسکول اور فٹ پاتھ تک ان کا سائباں بنا، ان تمام لوگوں کے بے شمار مسائل تھے۔ متروکہ املاک جائیدادوں اور فلیٹوں کے الاٹمنٹ کے خواہش مند حضرات کی خواہشوں سے لمبی قطاریں تھیں۔ کراچی میں بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ اس وقت کے فارن سروس کے ایک اعلیٰ آفیسر آغاہلالی نے مجھے بتایا کہ سب میرین چوراہے کے پاس واقع وزارت خارجہ کے آفس میں ٹائپ رائٹر تک موجود نہ تھی، بعد میں ٹائپ رائٹرخریدنے کے لئے انہیں بگھی میں بیٹھ کر بولٹن مارکیٹ جانا پڑا تھا۔ 1951 میں قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت وطن عزیز کے لئے عظیم سانحہ ثابت ہوئی۔ بعد میں حکومتیں ڈگمگاتی رہیں، ساتھ ساتھ سازشیں اور ریشہ دوانیاں اپنا کام دکھاتی رہیں اور ایک طویل عرصے سے ملکی ادارے اور اس کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ اس طرح نمو نہ پاسکا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ جب ایوب خان بر سر اقتدار آئے تو حکمرانی میں ایک تسلسل آیا۔ 1993میں مجید نظامی کی ہدایت پر میں نے جنرل اعظم کی خود نوشت لکھنے میں ان کی مدد کی۔ جنرل اعظم ان دنوں کے بہت سے رازوں کے امین تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کا نیا دارلحکومت مرگلہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ایک پر فضا مقام پر بنایا جائے گا۔
قائد اعظم اکیڈمی سے تعلق رکھنے والے دانشور اور محقق جناب خواجہ رضی حیدر نے بتایا تھا کہ ایک بار قائد اعظم نے راولپنڈی سے مری جاتے ہوئے مری موڑ پر گاڑی رکوا کر اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ یہ جگہ بہت ہی خوب صورت اور شاندار ہے یہاں ایک خوب صورت اور جدید شہر تعمیر ہو سکتا ہے لیکن بابائے قوم سمجھتے تھے کہ کراچی کو ہی پاکستان کا دارالسلطنت ہونا چاہیے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایوب خان کا گائوں ریحانہ مرگلہ کی پہاڑی سلسلوں کے ساتھ تھا، اس لئے انہوں نے اس علاقے کو دارالحکومت کے لئے منتخب کیا 50کی دہائی میں کراچی کی آبادی بہت تیزی سے بڑھنی شروع ہو گئی تھی۔ عامل کالونی کی پشت پر مکانات بننے شروع ہوئے، پھر پی آئی بی کالونی نے سر اٹھانا شروع کیا۔ ایوب خان کا دور کراچی کی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس دور میں کراچی کے پھیلائو میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ سائیٹ ایریا بنا، صنعتیں لگنی شروع ہوئیں۔ متعدد نئے تعلیمی اداروں کے دروازے کھلے۔ شہر کے انفرا اسٹرکچر پر خصوصی توجہ دی گئی، جس کی زندہ مثال نارتھ ناظم آباد کے انفرا اسٹرکچر، کشادہ ڈیزائننگ اور اسکی شاندار پلاننگ سے لگایا جا سکتا ہے۔ درحقیقت جب ہم سندھ اور کراچی کے مسائل کو یکجا کرکے دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے آپکو پورے پاکستان میں کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی کہ تمام صوبوں کے لوگوں نے شہر کراچی کی طرف رخ کیا، یہاں تک کہ وہ لبالب بھر گیا اوراس ہجرت نے اس شہر کے تہذیبی، تمدنی، ثقافتی پہچان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور اب بھی اس شہر کراچی میں پورے ملک سے لوگوں کی آمد بد ستور اور مسلسل جاری و ساری ہے۔
کراچی اور سندھ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں متعدد لسانی اکائیاں آباد ہیں، ان کے درمیان اختلافات اور رسہ کشی اس صوبے کی بڑی نوکیلی اور کھر دری حقیقت ہے۔ ان کے درمیان خدشات اور اندیشے موجود ہیں۔ سندھی اسپیکنگ آبادی کی اپنی شکایتیں اور گلے شکوے ہیں۔ کوٹہ سسٹم جو کہ اردو اور سندھی اسپیکنگ کے درمیان ایک بہت بڑا وجہ تنازعہ بنارہا اسے اب تک مل بیٹھ کر حل نہیں کیا گیا، جسکی وجہ سے سندھ کے شہری آبادی کے لوگ احساس محرومی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کی محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ اس شہر کے متعدد علاقوں کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت نہیں بسایاگیا۔ پھر غیر قانونی تعمیرات نے پورے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس کے انفرا اسٹرکچر پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، اس لئے کچی آبادیوں کا ایک جنگل اگ گیا ہے۔ یہ کچی اور غیر قانونی آبادیاں کیسے بنیں؟ ان پر قبضے کس نے کروائے؟ یہ سوال اب سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ کراچی میں ڈرینج کے نظام اور نکاسی آب کے لئے جو بڑے بڑے نالے اور ندیاں بنائی گئیں تھیں، ان میں باقاعدہ آبادیاں قائم ہو گئیں ہیں۔ یہ آبادیاں کیسے بنیں؟ ان کی سرپرستی کس نے کیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کراچی کا حلیہ بگاڑنے میں سرکاری اداروں اور سیاسی جماعتوں کا کلیدی کردار رہاہے۔ اس شہر کو اجاڑنے میں یہاں کے حکمرانوں اور دعویداروں کا ہاتھ ہے۔ یہ سارا غیر قانونی کام بتدریج اور بڑی سرعت سے ہوا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ماضی کو بھول کر اب مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیئے لیکن اس بات کا جائزہ تو لے لیں کہ جو کارستانیاں کی گئیں وہ کیا تھیں اور کیوں کی گئیں کیونکہ قدرت کا قانون ہے جو اٹل ہے کہ جن معاشروں میں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا اور ظالم کیفر کردار تک نہیں پہنچتا ان معاشروں کو زمین چاٹ جایا کرتی ہے۔ ہم نے بہت سے تجربات کر لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دعوے اور وعدے بھی دیکھ لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومتوں کے مزے بھی چکھ لئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا کراچی کے حوالے سے کردار اور انداز بھی دیکھ لیا ہے۔ لیکن کیا کوئی ہے جو انہیں روکے اور ٹوکے کہ پیالی میں چمچ ہلانا بند کریں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ چائے میں چینی نہ ہو تو لاکھ چمچ ہلائے جائیں چائے میٹھی نہیں ہوا کرتی۔