دکاندار عجب ہے
جب آپ کوششیں کر کر کے تھک جائیں اور نا امید سے ہوجائیں تو بور ہو جاتے ہیں، نڈھال ہو جاتے ہیں۔ مطلب۔۔۔۔ مطلب یہ کہ ذرا اسے ملاحظہ کیجیے جوشؔ ملیح آبادی کا تحریر کردہ ایک شاہکار سامنے کیا جو سید جالبؔ دہلوی کے بارے میں کچھ اس طرح سے تھا۔
" میں اپنے ذہن کو مبالغے سے پاک کر کے بلا خوفِ ابطال ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص معلومات عامہ حاصل کرنے کی دھن میں کامل ساٹھ برس تک اس روئے زمین کے تمام عظیم کتب خانوں کو چاٹ کھنگال چکنے کے بعد فقط ساٹھ منٹ کے واسطے ان کی ہم نشینی کی سعادت سے دوچار ہو جاتا تو اس کو یہ محسوس ہونے لگتا کہ وہ ایک ایسا اونٹ ہے جو پہاڑ کے نیچے آ کر بلبلانا بھول چکا ہے۔
ایک روز وہ کسی حلوائی کی دکان پر کھڑے ہوئے تھے کہ شوکت تھانوی پہنچ گئے انھوں نے پوچھا: "سید صاحب! کیا خرید رہے ہیں؟" انھوں نے کہا "حلوہ سوہن" اور یہ کہہ کر وہ گنانے لگے حلوؤں کی اقسام۔ انھوں نے حلوؤں کی اتنی اقسام بتائیں کہ حلوائی دنگ ہو کر ان کا منہ تکنے لگا اور لکھنو کے بے فکرے ان کے گرد جمع ہو گئے اور جب وہ اقسام گنا چکے تو یہ بتایا کہ حلوہ سوہن کی ایجاد اس مقصد سے ہوئی تھی کہ اس کے جوفوں میں خالص گھی بھر کر امرا کی ضیافت طبع کی جائے۔
اس کے بعد انھوں نے حلوہ سوہن کے موجد اور اس کے باپ دادا کے نام بتانا شروع کر دیے اور جب حلوہ سوہن کی پوری تاریخ بتا چکے تو بچپن سے لے کر آج تک کے تمام حلوہ سوہن بنانے والوں کے نام اور ان کی دکانوں کا محل وقوع بتا دیا۔ حلوائی دکان سے اتر پڑا، ان کے ہاتھ چومے اور کہا "یہ حلوہ سوہن حضور کی نذر ہے، میں دام نہیں لوں گا۔" گرد و پیش کے لوگ اس طرح داد دینے لگے کہ معلوم ہوا گویا مشاعرہ ہو رہا ہے۔
ایک بار میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ سامنے سے ایک بلی گزری، اب کیا تھا انھوں نے بلی نامہ شروع کر دیا۔ دنیا کی تمام بلیوں کے نام، اقسام اور ان کے مزاج اور علاج بتائے۔ دنیا میں سب سے پہلے کس نے بلی پالی تھی اس کا نام بتایا اور بیان کرتے کرتے بات حضرت ابو ہریرہؓ تک آ پہنچی۔"
کیا یہ واقعی سچ ہے جالبؔ دہلوی کے بارے میں پڑھ کر خاصی حیرت بھی ہوئی کہ کیا ذہن پایا تھا انھوں نے، پھر ذرا شک بھی گزرا کہ وہ کمپیوٹر تھے یا انسان۔"کیا خبر" یعنی آپ بھی کنفیوز ہیں۔ مضمون پر نام کس کا تحریر ہے، پوچھا گیا۔۔۔۔ ذرا غور سے ایک بار پھر پڑھا "جوش ملیح آبادی" ہوں۔۔۔۔ جوشؔ ملیح آبادی۔۔۔۔"گویا آپ کو جوشؔ ملیح آبادی کی شاعری بہت پسند ہے۔"
"ارے نہیں، ہاں سنا ہے کہ بہت بڑے شاعر تھے اردو کے پیپر میں آئے تھے لیکن میں نے یاد نہیں کیا تھا اسی لیے زیادہ معلومات تو نہیں ان کے بارے میں لیکن مشہور بہت تھے ورنہ کتابوں میں ان کا ذکر کیوں ہوتا۔" بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس قدر گھمانے پھرانے کا کیا سبب۔ سبب ہے ناں۔۔۔۔ آج کل تو یہ ہی ہو رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس معلومات کا خزانہ ہے تو اسے انڈیل دیں اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کے دماغ کی دھلائی بھی ہو جائے گی اور دوسرا یہ کہ لوگ خوب سراہیں گے۔ دھلائی یعنی۔۔۔۔ یعنی ریچارج ہو جائے گا۔ بس۔۔۔۔ تو اور کیا۔ لیکن اس سے ہماری شروع میں جو بات ہو رہی تھی اس سے کیا تعلق بنتا ہے۔
گڈ سوال۔۔۔۔ یہی تو ساری بات ہے کہ کیا تعلق بنتا ہے۔ بظاہر تو کچھ بھی نہیں بنتا لیکن ذرا غور سے دیکھیے جانچیے تو بہت بڑا تعلق بنتا ہے، ایک اور الجھی ہوئی بات سامنے آئی۔ تعلق۔۔۔۔۔ یعنی کیسا۔۔۔۔۔ کس قسم کا تعلق۔۔۔۔۔ صاف سی بات ہے میرے اور معذرت کے ساتھ آپ جیسے لوگوں کے لیے نہیں لیکن ذرا اونچے درجے کے با اثر، بارعب لوگوں کے لیے۔ چاہے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو۔ بالکل چاہے کسی بھی شعبے سے تعلق ہو ایسی معلومات کے ذخیرے سے فائدہ ملتا ہے چاہے کچھ بھی نہ آتا ہو سوئی میں سے دھاگہ بھی نہ نکال سکتے ہوں لیکن کھال تو اتار سکتے ہیں ناں۔ لیکن یہ تو بڑی خطرناک بات ہوئی۔
اجی واہ! آپ جیسے لوگوں کے لیے خطرناک اور دوسرے لوگوں کے لیے کامیاب۔ لیکن یہ بات نہ تو عظیم شاعر جالبؔ دہلوی اور نہ ہی جوشؔ ملیح آبادی کے اذہان میں آئی۔ اور کیا ہوا شاعری میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن نہ بنگلہ نہ گاڑی اور نہ ہی دیگر مراعات لاکھوں کیا شاید ہزاروں اور سو میں بھی ماہانہ آمدنی نہ ہو گی۔ لیکن ان کے ذہن ان کا دل پُرسکون تو تھے۔ ناں ہر گز نہیں، یہ حقیقت ہے کہ ان کی زندگی کو پڑھنے کا موقع نہ ملا لیکن ذرا یہ پڑھیے۔
رسالہ پھر تھما دیا گیا۔ الفاظ بھی آدمیوں ہی کی پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ بیمار پڑتے اور تندرست ہوتے ہیں۔ بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔ گوشہ نشین رہتے اور سفر کرتے ہیں۔ یہ تو اقوال جوشؔ ہیں، بالکل اور یہ شاید آپ کے لیے ہی ہے۔۔۔۔ میرے لیے۔۔۔۔۔ ذرا حیران کن پریشانی سے ان کی جانب دیکھا تو لبوں پر تبسم کھلا دیکھا گویا سوال کھڑا تھا، ارے نہیں، ہم گوشے نشین نہیں ہیں ہم تو۔۔۔۔۔ جی جی آپ تو۔۔۔۔ مان لیں کہ آپ کے الفاظ فی الحال پیدا ہو رہے اور مر رہے ہیں۔۔۔۔۔ آگے۔۔۔۔ ذرا غور سے پڑھیں۔ تبسم ذرا گہرا ہو چلا تھا۔
تخلیق ادب و شعر کے کرب کو بیان کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکتا اور اگر اسے بیان کرنے کی سعی کی جائے تو الفاظ سے خون ٹپکنے لگے گا۔
جی۔۔۔۔ تعلق کچھ بنا۔۔۔۔ وہ بڑے لوگ تھے۔۔۔۔ اچھا اور آپ۔۔۔۔ بات کو پھر الجھایا جا رہا ہے جناب۔۔۔۔ تو آپ سلجھا دیں دراصل یہاں سلجھانے کی بجائے الجھانے کا دھندہ خوب زوروں پر ہے اور یہی چل رہا ہے، جتنا الجھاتے جائیں گے اتنے ہی بڑے آدمی کہلاتے جائیں گے آپ جیسے مثبت سوچ رکھنے والوں کی اب۔۔۔۔۔ کچھ مزید کہنے سے پہلے سوچ لیں کہ انسان کو کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیے اور ہم نے یہی سیکھا ہے اچھا سوچنے اور اچھا کرنے سے برا وقت بھی اچھا ہو جاتا ہے۔۔۔۔ تو گویا تھکن نہیں ہوئی۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ بوریت بھی نہیں ہوئی۔ تو کیا ہوا۔۔۔۔ اور ناامیدی کا سوال ہی نہیں تو ٹھیک ہے ہم کہیں اور کا رخ کر لیتے ہیں بلاوجہ میں ہی اتنا وقت خراب کیا۔ اس نے اپنی دکان سمیٹی اور آگے بڑھ گیا۔