شہر قائد یا شہر ناپرساں
کسی بھی ذی روح کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ناگزیر ہیں، آب اور ہوا۔ ان دونوں کے بغیر جسم و جان کا رشتہ برقرار رہنا ناممکن ہے۔ ان دونوں میں پانی کو اولیت حاصل ہے۔ اس لیے آب و ہوا کی اصطلاح رائج العمل ہے۔
ہوا پر تو انسان کا بس نہیں چلتا، ورنہ تو وہ اسے بھی قابلِ فروخت بنا دیتا اور حکومت نے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا ہوتا۔ لیکن افسوس کہ انسانوں نے پانی کو جوکہ قدرت کا بے مول عطیہ ہے قابل فروخت شے بنا دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بھی عنقیٰ ہو گیا۔ چنانچہ انگریزی کے ممتاز شاعر ایس ٹی کولرج کو (S.T Coleridge) یہ کہنے پر مجبور کہ:
Water، water everywhere
not a drop to drink
پانی پانی ہر طرف
پینے کو قطرہ بھی نہیں
شہر قائد میں جگہ جگہ پر گٹر ابل رہے ہیں اور ہر طرف پانی ہی پانی ہے، لیکن شہر کے باسی پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے ترس رہے ہیں اور ارباب اختیار کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم جن علاقوں کو پانی سپلائی بھی کیا جا رہا ہے ان کے رہائشیوں کو پانی کے نام پر زہر قاتل پلایا جا رہا ہے۔
وہ پانی جو اس قدر آلودہ ہے کہ اس کے استعمال سے بہتر ہے کہ انسان بغیر پانی کے ہی مر جائے۔ انتہا یہ کہ اس پانی کی قیمت بھی وصول کی جا رہی ہے۔ اس زہر قاتل کا انکشاف اس وقت ہوا جب ہمیں یہ شک گزرا کہ:
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے اس پانی کو پینے کے اور کھانے کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کیا، ورنہ تو ہم کب کے راہی ملک عدم ہو چکے ہوتے۔ یا کم سے کم کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر داخل اسپتال ہوگئے ہوتے۔
کراچی کے عوام کی زندگیوں کے دشمن اس ادارے کا نام ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB)۔ ہماری چھٹی حس نے نہیں بلکہ عام حس نے ہمیں یہ بتا دیا کہ اس پانی میں ضرور کوئی نہ کوئی خرابی ہے۔ چنانچہ ہم نے اس کا باقاعدہ لیبارٹری ٹیسٹ کرایا تو سارا بھید کھل گیا۔
دراصل نہانے کے دوران ہمیں یہ محسوس ہوا کہ اس پانی میں ضرور کوئی نہ کوئی خرابی ہے۔ جس نے ہماری جلد کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ اس وقت بھی جب کہ ہم یہ کالم سپرد قلم کر رہے ہیں ہم شدید جلدی بیماری کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ اس پانی میں Fecal Contaniration ہے۔
اور اس کے استعمال کے نتیجے میں اسہال، پیچش، ہیپاٹائٹس، فوڈ پوائزننگ اور پیٹ کے کیڑے جیسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ شہر قائد کے عوام کی صحت بلکہ جان کے ساتھ کھیل رہا ہے اور ذمے داران میں سے کسی کو بھی اس خوفناک کھیل کا ذرا بھی علم نہیں اور سب کے سب خواب غفلت میں سو رہے ہیں۔ اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ذمے دار شریک جرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
نہیں معلوم کہ یہ کھیل کب سے جاری ہے، اور کب تک جاری رہے گا۔ ارباب اختیار کے علم میں لانے کے بعد ہماری مفاد عاملہ کے حق میں آنریبل سندھ ہائی کورٹ سے اپیل ہے کہ اس معاملے کا فوری نوٹس لے کر باقاعدہ تحقیق کرائی جائے اور اس میں ملوث تمام لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔