گاڈ میڈ
اک صاحب کمال نے یہ کیا کمال کر دیا
ایجاد کر کے ریڈیو واقف حال کردیا
پاکستان اور ریڈیو پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ 13 اور 14 اگست 1947 کی درمیانی شب قیام پاکستان کے تاریخی اعلان کی سعادت ریڈیو پاکستان کا ہی طرہ ّ امتیاز ہے۔ تب سے آج تک یہ منفرد ادارہ وطن عزیز کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ وطن عزیز کے دفاع سے لے کر اس کی ترقی و تعمیر میں ریڈیو پاکستان کا کردار کلیدی اور مثالی رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بیرونی نشریات کا شعبہ سفارت کاری کی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہے۔
یہ تاثر سر اسر غلط تھا کہ اب ریڈیو کو کوئی نہیں سنتا اور یہ کہ اب اسے صرف دیہات میں ہی سنا جاتا ہے۔ ایف۔ ایم نشریات نے اس غلط تاثر کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔ یکم اکتوبر 1998 وہ تاریخی دن تھا جب ریڈیو پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سرکاری ریڈیو کے ایف ایم چینل 101 کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کا افتتاح حکیم محمد سعید (شہید)نے اس خاکسار کے اصرار پر کراچی کے ایک معروف فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقدہ ایک نہایت پروقار تقریب میں کیا تھا۔ بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ یہ کار نامہ اس وقت انجام پایا تھا جب سید انور محمود ریڈیو پاکستان کے ڈائریکڑ جنرل تھے اور یہ خاکسار ریڈیو پاکستان، کراچی کا اسٹیشن ڈائریکٹر تھا۔
ا س وقت میرے پیش نظر ایک خوبصورت کتاب ہے جس کاعنوان ہے "گاڈ میڈ " (God Made)اصل میں یہ کتاب ہمارے ایک پیارے رفیق کار ڈاکٹر عبدالستار منعم ؔکی آپ بیتی ہے جو ہماری طرح ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبوں میں طویل خدمات انجام دے کر سبک دوش ہوگئے۔
کتاب کا عنوان " گاڈ میڈ " ان خود پرستوں کے لیے جواب ہے جو " سیلف میڈ" کی اصطلاح تراشتے ہیں اور اپنی دنیاوی کا میابیوں کا سارا کریڈٹ اپنی ذہانت کو قرار دیتے ہیں۔ یہ غافل اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہماری بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے لہٰذا اس کائنات کی ہر شے خدا وند تعالیٰ کی تخلیق یعنی گاڈ میڈ ہے۔ فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ مختصر روداد حیات کسی پلاننگ کے تحت نہیں لکھی بلکہ محض یاداشت کو رقم کرنا مقصود تھا۔
محبی عبدالستار ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ ایک کامیاب براڈ کاسٹر ہونے کے علاوہ ایک ماہر ہومیو پیتھ بھی ہیں۔ ڈاکٹر کا لا حقہ اسی لیے ان کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ موصوف پنجابی زبان کے ممتاز شاعر بھی ہیں اور منعم ؔ تخلص فرماتے ہیں۔ وہ ایک عام دیہاتی گھرانے کے سپوت ہیں جس کی زندگی مسلسل محنت اور جدو جہد سے عبارت ہے اور ان کی کامیابی باری تعالیٰ کی نظر کرم کا ثمر ہے۔
عموما دنیا کے بڑے اور کامیاب لوگ اپنے خاندانی پس منظر کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور "پدرم سلطان بود" کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عبدالستار کا معاملہ اس کے الٹ ہے۔ انھوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے کہ " پدرم سلطان نہ بود "۔ عبدالستار کی یہ اثر انگیز آپ بیتی اللہ تعالیٰ کے انتہائی عاجز اور شکر گزار بندے کی دل سوز و دل گداز رام کہانی ہے جس سے گدڑی کے لعل نامساعد حالات میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ برادر عزیز عبدالستار کی آپ بیتی کو پڑھ کر یہ گمان ہوا کہ گویا یہ ہماری آپ بیتی ہے جسے انھوں نے اپنے نام سے شایع کرادیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے کیا کہیں؟ توارد یا حسن اتفاق؟ سادگی اور روانی اس آپ بیتی کی نمایاں خوبی ہے جس کی بدولت جی نہیں چاہتا کہ 197 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو شروع کرنے کے بعد آخری صفحہ تک پڑھے بغیر ادھورا چھوڑ دیا جائے۔ یہ ایسی دلچسپ داستان ہے کہ بقول شاعر :
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
عبدالستار کی پیدائش اوکاڑہ کے چک نمبر6/41 اسلام آباد میں ہوئی۔ یہ گائوں اوکاڑہ شہر سے تقریبا 5کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ عبدالستار رقمطراز ہیں کہ والدین نے مجھے میٹرک ہی میں بھینس کا دودھ نکالنا سکھا دیا تھا لہٰذا یہ کام میں شوق سے کرتا تھا۔ کبھی کبھی گراموفون ریکارڈ بھی شہر سے کرایے پر لاکر بجائے جاتے تھے جو بیٹری کی مدد سے مشین پر چلتے تھے۔ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور کھیل ہماری تفریح طبع کے ذرایع تھے "۔ بقول شاعر:
اسیر پنجہ عہد شباب کر کے مجھے
کہا ں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے
عبدا لستار نے عربی اور اسلامیات کے مضامین میں ایم۔ اے کیا۔ حصول تعلیم کی طرح تلاش معاش میں بھی انھوں نے بہت پاپڑ بیلے تاآنکہ بطور پروگرام پروڈیوسر ریڈیو پاکستان میں اپنے کامیاب کریئر کا آغاز کیا اور اپنی طویل خدمات انجام دینے کے بعد ڈائریکٹر آف پروگرام کے اعلیٰ منصب سے باعزت ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے اس دوران ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں کی خاک چھانی اور مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیت کا جادو جگایا اور اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا جس کی دلچسپ تفصیل ان کی آپ بیتی " گاڈ میڈ " میں درج ہے۔ ریڈیو براڈ کاسٹر کی زندگی بڑی رنگا رنگ اور بے حد مصروف ہوتی ہے جس میں وقت او ر حالات کی کوئی بندش یا قید نہیں ہوتی۔ بسا اوقات یہ ذاتی مصروفیات، دکھ بیماری اور غمی و خوشی کے تقاضوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ یہ اور بات ہے کہ آج کا ریڈیو پروڈیوسر اس دیوانگی کا روگ پالتا ہوا نظر نہیں آتا۔
برادر عبدالستار نے اپنی اس آپ بیتی میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ اپنے جن سنیئرز کا ذکر کیا ہے ان میں کچھ ہمارے بھی سنیئرز بلکہ نا بغہء روز گار گزرے ہیں مثلا اے۔ ایف کلیم اللہ، حمید نسیم اور سلیم گیلانی۔ ہمارے یہ اکابرین ہمارے لیے استاد کامل یا مہاگرو کا درجہ رکھتے ہیں جب کہ ان میں سے بعض ہمارے ہم عصر اور بے تکلف دوستوں میں شامل ہیں اور کچھ ہمارے بعد کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔
ہمیں برادر عبدالستار کی اس بات سے قطعی اتفاق ہے کہ وطن عزیز کے عام آدمی کے پاس موبائل فون پر FM ریڈیو کی اضافی سہولت میّسر آنے سے ریڈیو کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو کو بھر پور انداز میں تفریح طبع کے ساتھ قومی اتحاد کے فروغ کے علاوہ ملک کی ترقی و تعمیر کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ کورونا وائرس کی وباء کا مقابلہ کرنے کی آگہی مہم میں ریڈیو جو نمایاں کردار ادا کر رہا ہے وہ روز روشن کی طرح سے عیاں ہے۔ عیاں راچہ بیاں !