1.  Home/
  2. Shaheen Sehbai/
  3. Taliban Aur Lyse Doucet

Taliban Aur Lyse Doucet

طالبان اور لیز ڈوسیٹ

بی بی سی کی مشہور زمانہ رپورٹر لیز ڈوسیٹ پاکستان میں ایک جانا پہچانا نام ہیں اور ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جنہوں نے افغانستان میں روس کا جنازہ نکلتے دیکھا۔ 1992ء میں اور ابھی 29 فروری کو دوحا میں امریکہ اور طالبان کو ہاتھ ملاتے اور آنکھیں چراتے دیکھا۔ دونوں موقع تاریخی تھے۔ ایک تو میں نے خود دیکھا اور اس پر رپورٹنگ کی۔ لیز اسلام آباد میں بی بی سی کی رپورٹر تھیں اور میں اسلام آباد میں ڈان کے اسلام آباد بیورو کا چیف تھا۔ اکثر ملاقات ہوتی تھی، انتہائی نفیس اور شریف ہر ایک سے بہت پیار اور دوستی کے ساتھ ملتیں تھیں (سوائے ایک دو اسلام آباد کے بڑے لکھاری) کیونکہ وہ شام کو ذرا بے ہنگم گفتگو اور حرکات کی وجہ سے کچھ خواتین میں ناپسندیدہ سے ہو گئے تھے۔ کون تھے وہ اسلام آباد والے خود اندازہ لگا لیں۔ اپریل 92 میں کابل میں سخت لڑائی تھی اور نجیب اللہ کی حکومت گرنے والی تھی۔ مجاہدین کی فتح کابل سے چار دن پہلے ڈان نے مجھے کہا کہ کابل چلا جائوں اور وہاں سے رپورٹ کروں۔ جو حکم سرکار کا، میں روانہ ہو گیا۔ پاکستان سے سارے راستے بند تھے اور جہازسے صرف دلی کے راستے ہی کابل جانا ممکن تھا۔ میں نے دلی کا اور کابل کا ٹکٹ لیا اور روانہ ہو گیا۔ دلی ایئر پورٹ پررات کو پہنچا اور صبح 5 بجے کابل کی پرواز پر بکنگ تھی۔

پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ کابل کا ہوائی اڈہ بند ہے اور سب پروازیں رک گئی ہیں مگر میری دریا دلی کام آ گئی۔ ہوا یوں کہ جیسے ہی میں دلی اترا اور ڈیوٹی فری شاپ میں آیا ایک بھارتی ایئر لائن کا بندہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اگر میں اسے ایک بوتل وہاں سے خرید کر باہر لے جا کر دے دوں تو وہ بڑا مشکور ہو گا اور پیسے پہلے دیدے گا۔ میں نے کہا اچھا کیونکہ شکل سے بھلا مانس ہی لگ رہا تھا۔ سو وہ بوتل میں نے لے کر اسے دیدی اور جب وہ پیسے دینے لگا تو میں نے کہا کہ یہ پاکستان کا تحفہ سمجھ کر رکھو وہ بڑا حیران ہوا مگر جب میں کابل کی سیٹ لینے کائونٹر پر آیا تو وہاں لکھا تھا کہ کابل کی کوئی پرواز نہیں جائے گی مگر مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ آئیں۔ وہ مجھے ایک اور کائونٹر پر لے گیا اور کہا صرف ایک کارگو کا جہاز ایک گھنٹے بعد دلی سے کابل جائے گا اور مچھلی کے بڑے کریٹس لے کر جا رہا ہے تو آپ کو میں اس میں بٹھا دیتا ہوں۔ ایک اور نیوز ویک کا صحافی بھی جانے کی کوشش کر رہا تھا، سو اس نے ہم دونوں کو مچھلی کے ڈبوں کے ساتھ بٹھا دیا اور ہم کابل کے لئے روانہ ہو گئے۔ دو تین گھنٹے بعد اترے تو معلوم ہوا ہوائی اڈہ خالی ہے اور بمباری ہونے والی ہے اور سائرن بج رہے ہیں۔ ہم لوگ وہاں سے کسی کارروائی کے باہر بھاگے اور پک اپ گاڑیوں کے پیچھے لٹک کر کابل آ گئے۔ چار دن وہاں مجاہدین کے ساتھ مل کر خوب رپورٹنگ کی اور ان کے ٹینکوں پر بیٹھ کر کابل میں داخل ہوئے۔ کیا نظارے تھے اور وہ تصویریں اب بھی میری یادگار ترین تصاویر ہیں۔ کابل فتح ہو گیا اور صبغت اللہ مجددی نے افغان صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ دو دن بعد جشن منانے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ آصف نواز جنجوعہ اور پورے دو C-130جہاز کابل ایئر پورٹ پر اترے۔ میں کیونکہ پہلے ہی کابل میں تھا تو ایئر پورٹ پہنچ گیا تھا۔ جیسے ہی پہلا جہاز رکا، پہلی خاتون اتریں اور وہ لیز ڈوسیٹ تھیں حجاب پہنے، میں سب سے آگے کھڑا سب کا منتظر تھا اور لیز کو دیکھ کر اس کی طرف بھاگا۔ دو دوستوں نے گلے لگایا اور پھر سارے وزیر اور مشیر اور جنرل اور کھانے کے بڑے بڑے تھال اور پھول اور گلاب اترنا شروع ہوئے اور ہم سب جناب مجددی کو مبارکباد دینے ایوان صدر پہنچے۔ خوب جشن ہوا تقریریں ہوئیں دنیا بھر نے روس کی شکست منائی اور کابل کی فتح۔

یہ سارا واقعہ مجھے اب اس لئے یاد آیا کہ تقریباً 28 سال بعد جب افغان وطن پرست لڑاکا قوم پرستوں نے پھر دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت کو صلح کرنے پر مجبور کر دیا اور دنیا کے سامنے تقریباً یہ منوا لیا کہ وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور امن کی شرائط مان کر واپس جانا چاہتے ہیں، میری دوست لیز ڈوسیٹ پھر دوحا میں سب کے درمیان موجود تھیں اور افغانستان کے ایک اور تاریخ ساز دن کی رپورٹنگ کر رہی تھیں ان کی رپورٹ بی بی سی پر سن کر میں نے ٹویٹر پر پیغام بھیجا کہ تمہاری آواز سن کر کابل ایئر پورٹ کی یاد آ گئی جب تم C-130 سے بھاگ کر کابل میں اتریں اور وہاں سب سے آگے میں استقبال کرنے کھڑا تھا۔ پھر میں نے کہا کہ تم لوگوں کے لئے ایک Icon ہی یعنی مشعل راہ۔ فوراً جواب آیا "شاہین بھائی دوبارہ تعلق جوڑنا اچھا لگا۔ اچھے الفاظ کا شکریہ اور پرانی یادیں تازہ کرنے کا بھی"

لیز نے جو رپورٹنگ دوحا سے کی وہ یادگار رہے گی کیونکہ واقعہ ہی تاریخ کا حصہ ہے لیکن پھر میں نے اپنے میڈیا اور تجزیہ نگاروں کے خیالات سنے تو افسوس ہوا۔ صرف 92 نیوز کے ہارون الرشید صاحب کا تجزیہ حقائق اور سچا اور بے لاگ لگا۔ کچھ میڈیا والوں نے تو اس دوحا کے امن معاہدے کو ہوا میں یوں اڑا دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کوئی عقل کے ناخن لے۔ روس کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور ایک پیدل اور اللہ پر بھروسا کرنے والی لڑاکا فوج کے ساتھ، دنیا کے سامنے یہ لکھ کر معاہدہ کر رہی تھی کہ ہماری تمام افواج یہاں سے نکل جائیں گی اگر تم لوگ ہمارے خلاف کوئی اقدام نہ کرو۔ اس کے سارے اتحادی اور ڈالروں کی امید لگانے والے ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور تالیاں بج رہی تھیں۔ طالبان کہاں سے کہاں تک آ گئے کوئی سوچے۔ 2001ء میں ایک دن کے اندر وہ اپنی ساری حکومت چھوڑ کر ایسے زمین دوز ہو گئے تھے جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ ملا عمر موٹر سائیکل پر نامعلوم منزل کی جانب چلے گئے تھے۔ ملاضعیف جو اسلام آباد میں سفیر تھے امریکہ کے حوالے کر دیے گئے۔ باقی کون کیا تھا کوئی نہیں جانتا۔ وہ اپنی مٹی کے لوگ اپنی مٹی میں مل گئے اور ایک ایسی جدوجہد شروع کی کہ لوگ بڑے بڑے لیڈروں کو بھول گئے۔ سارے جہاز، ڈرون، ٹینک بڑی بڑی وردیاں اور بندوقیں، فلمیں اور پروپیگنڈا اپنی جگہ رہ گیا اور وہی طالبان کے ملا، جن کادنیا بھر میں مذاق اڑایا جاتا تھا اب سفید کپڑے پہنے، معزز پگڑیاں باندھے دنیا کی ہر بڑی ایئر لائن پر بیٹھ کر مذاکرات کرنے جاتے ہیں اور بڑے ہوٹلوں میں رہتے ہیں اور ان کی طرف کوئی بری نگاہ سے دیکھ نہیں سکتا۔ انہوں نے سختیاں جھیلیں، قربانیاں دیں اور ایسی سخت زندگی گزاری کہ شاید ہمارے کاغذی انقلابی کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آدھے سے زیادہ ملک پر ان کا آج قبضہ ہے وہ سب سے بڑی قوت ہیں اور اب امریکہ سے ہاتھ ملانے کے بعد ان کو روکنے والا کون ہو گا؟ ہارون الرشید صاحب نے صحیح کہا کہ اب طالبان کا اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ آج کا دن 2001ء نہیں ہے۔ 20 سال بعد انہوں نے لڑ کر اور ہر قسم کی جنگ لڑ کر، زمینی، آسمانی، میڈیا کی، عوام کی اور ثابت قدم رہ کر دشمن کو صلح کرنے پر مجبور کرنے کے بعد اب ایک ایسی قوت حاصل کر لی ہے کہ ان کے سامنے اب کیا کوئی کسی بڑی قوت کا چمچہ یا کڑچھا، یا باہر سے درآمد کیا ہوا لیڈر یا ماہر کھڑا ہو سکے گا۔ جو ایسا سوچے گا بے وقوف ہی ہو گا۔ ہاں اب اس معاہدے کے بعد ان کو دکھانا ہے کہ وہ ایک جنگلی انپڑھ اور دنیا کی ضرورتوں کو نہ سمجھنے والا جتھہ نہیں ہیں بلکہ وہ اب خود حکومت کرنے کے قابل سیاسی اور سماجی اور معاشی قوت ہیں وہ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں اور اگر یہ انہوں نے ثابت کر دیا تو جلد پورا افغانستان ان کے ساتھ اور ان کے قابو میں ہو گا۔ وہ اسلامی دنیا کے لئے بھی ایک ایسا سچا اور انصاف پر مبنی نظام دے سکیں گے کہ خود اسلامی ممالک اور سارے ہمسائے اور دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ افغانستان ایک غریب ملک نہیں ہے صرف سونے اور تانبے کے ذخائر ہی اتنے ہیں کہ اربوں ڈالر سالانہ کی آمدن ہو سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور معلوم ہے کہ پاکستان میں ریکوڈک کے ذخائر سے دوگنے طورخم کے اس پار موجود ہیں اور یہ امریکیوں نے ہوائی جہاز کے کئی سروے کروانے کے بعد پتا لگا لیا تھا۔ افغانستان دنیا کا سب سے بڑا افیون اگانے اور ہیروئن دنیا میں بھیجنے والا ملک ہے اور اس کی قیمت سالانہ 10 سے 12 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ 20 سال میں کسی حکومت نے ان ڈالروں کی کانوں کو بند کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا اور کئی کتابیں چھپ چکی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ افیون کی ہر حکومت اور فوج اور ان کے ملک کے اندر اور باہر کے دوستوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر طالبان صرف اس ایک صنعت کو بند کر دیں اور دنیا سے اس کو بند کرنے کا معاوضہ لیں تو کئی ارب ڈالر ان کی جیب میں ہونگے۔

کئی تجزیہ نگار ابھی بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اور حکمت یار کی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ طالبان کو روک دیں گے۔ ان سب کو امریکہ اور دنیا بھر کی حمایت حاصل تھی مگر معاہدہ طالبان ہی سے کرناپڑا کہ ان کی آدھے سے زیادہ ملک پر حکمرانی ہے اور امریکہ کے لئے وہی اہم ہیں خود امریکی صدر نے طالبان کے لیڈر سے فون پر بات چیت شروع کر دی ہے اور آپس کی لڑائیاں کچھ دن شاید اور چلیں لیکن اب یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ کسی چھوٹے گروہ یا لیڈر کو خواہ مخواہ حد سے زیادہ اہمیت اور بڑھاوا نہیں دے گا۔ تو جس دن طالبان کو کابل میں حکومت مل گئی اور وہ امریکہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اب قابل اعتبار حکومت بنا سکتے ہیں، افغانستان کی قسمت بدل جائے گی اور اس کے ساتھ پورے خطے کی سیاست اور قسمت بھی بدل جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے الیکشن سے پہلے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا اور طالبان بھی لگ رہا ہے ان کا ساتھ دیں گے۔ اس لئے اب شاید لیز ڈوسیٹ کو تیسری دفعہ افغانستان میں ایسی رپورٹنگ نہ کرنی پڑے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.

 

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal