سیاسی منظر کی بڑی تصویر
اپنے ٹی وی چینل دیکھ کر لگتا ہے کہ اب اصل تبدیلی یعنی سیاسی حکومت کی تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔ کبھی ایک حکومتی حلیف ناراض ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ ٹی وی نہ دیکھیں اور صرف بڑی خبریں سنیں تو بالکل دوسری تصویر نظر آتی ہے اور آج دو تین ہفتے کے بعد میں اس بڑی تصویر جو دور سے ذرا زیادہ صاف نظر آتی ہے، اس کی بات کروں گا۔ شروع کر ہی رہا تھا تو سوچا اونچے ایوانوں میں کسی سے ایک صورت حال کی تازہ ترین اپ ڈیٹ ہی لے لوں۔ پوچھا کہ آپ لوگ کیا ٹی وی والوں کے تبصرے اور تجزیے دیکھ رہے ہیں اور جو ہر ماہر اپنے پروگرام میں ایک خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے کیا آپ کو بھی کوئی خطرہ نظر آ رہا ہے ایک انتہائی اعلیٰ اور وزیر اعظم کے قریب ترین دوست کا پیغام آیا افواہوں پر کان نہ دھریں یہ موسم ہی اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا ہے اور ہر ایک اپنا ہی منجن بیچے گا۔ جیسا میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا۔ روزانہ 50سے 60اینکر اپنے شو کرتے ہیں اور ظاہر ہے کوئی نہ کوئی کہانی تو سنانی پڑتی ہے کہ کوئی جوتوں اور بوٹوں کی بات کرتا ہے، کوئی حکومت کے ساتھ شامل سیاسی گروپ اور افراد کی شکایت آگے بڑھاتا ہے، کوئی پریشان بیٹھا ہوتا ہے کہ جو تجزیے پہلے کئے تھے غلط ہو گئے اور جن بہادروں پر تکیہ تھا وہ میدان چھوڑ کر فرار ہوئے تو اب کیا کریں۔ جب تک ٹی وی نہیں تھا سیاستدانوں کی زندگی بہت آرام دہ سکون بخش تھیں کیونکہ جو دل چاہا کہہ دیا اور جب چاہا مکر گئے کوئی پوچھنے والا نہیں، مگر اب ٹی وی اور کمپیوٹر کا اتنا بے رحم دور ہے کہ چند سکینڈ لگتے ہیں اور پرانی ویڈیو سامنے آ جاتی ہے اور اس کو جھوٹا یا جعلی کہنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ تو شرمندگی کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں اور آسان طریقہ ہے کہ ٹی وی اسکرین سے کچھ دن کے لئے فرار اختیار کر لی جائے۔ اس سارے غصے کی بہترین اور موجودہ مثال مریم نواز کا ایک فرمان ہے جو انہوں نے ایک تقریر میں انگلی اٹھا اٹھا کر لوگوں سے کہا تھا کہ ان کے الفاظ کو یاد رکھیں کہ جب مشکل وقت آتا ہے یہ فوراً لندن بھاگ جاتا ہے جہاں ان کے بچے بھی ہیں اور جہاں ان کا سب کچھ ہے۔ ظاہر ہے یہ الفاظ بی بی نے اپنے والد بزرگوار کے لئے تو نہیں کہے تھے اور شاید نشانہ کوئی اور تھا مگر یہ ترکش سے نکلا ہوا تیر بدقسمتی سے ان کے ابا حضور پر ایسا چپک گیا ہے کہ یہ داغ دھونے میں کئی طرح کے واشنگ پوڈر درکار ہوں گے تو دور سے نظر آنے والی تصویر میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کچھ یوں نظر آ رہا ہے۔ حکومت اور وزیر اعظم بڑے ثابت قدم ہیں اور پراعتماد ہیں کہ ان کے بڑے بڑے حریف یا تو ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں یا اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں یا جان و مال بچانے کے چکر میں ہیں۔ جو عدالتی چیلنج آئے تھے وہ ایک ایک کر کے پانی میں نمک کی طرح گھل گئے۔ سڑکوں پر عوام کو لانے کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے حالانکہ عوام میں مہنگائی کی وجہ سے کافی غصہ ہے۔
کیونکہ بجٹ کا موسم آ رہا ہے اور سب کو اندازہ ہے کہ اس موسم میں جتنا شور مچا کر اپنا حصہ مانگا جائے گا اتنا ہی ملے گا۔ ایک مخلوط حکومت کی سب سے بڑی کمزوری ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے حصہ داروں کے ہاتھوں مستقل بلیک میل ہونے کی پوزیشن میں ہمیشہ رہتی ہے۔ آج کل اس بلیک میلنگ کا سیزن شروع ہو گیا ہے اور حکومت کے مطابق سب کو منا لیا جائے گا اور کوئی اس چلتی ہوئی گاڑی کو روکنے یا الٹانے میں زیادہ سیریس نہیں ہو گا۔
سیاسی جگت بازیاں جیسے فیصل واوڈا صاحب کا فوجی بوٹ یا اسمبلی کے اندر رانا ثناء اللہ اورشہریار آفریدی کی قرآن پاک پر حلف اٹھانے کے حوالے سے گولہ باری لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ضروری ہیں کیونکہ60 ٹاک شوز کو روزانہ گیس پٹرول دانہ پانی بھی توڈالنا ہے ورنہ وہ لندن بھاگنے والوں کی پرانی ویڈیوز دکھا کر شرمندہ کریں گے یا سڑکوں پر مائیک لے جا کر عوام سے مہنگائی پر حکومت کو گالیاں دلوائیں گے۔
بوٹوں کو بار بار سیاست میں گھسیٹنا بھی ایک اچھا طریقہ ہے مگر بلاول صاحب کا سلیکٹڈ کا نعرہ تو خود ہی جانے کہاں تحلیل ہو گیا اور خود بلاول بھی چھٹیاں منانے نکل کھڑے ہوئے لہٰذا اب کوئی کسی کو سلیکٹڈ کے طعنے نہیں دیگا۔
خود فوجی بھائی تو ملکی صورت حال سے زیادہ خطے کے حالات میں الجھے ہوئے ہیں اور دنیا بھر کے فوجی اور سیاسی لیڈر ان سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ آخری فیصلہ ان کی مشاورت سے ہی ہونا ہے اور یہ ضروری بھی ہے کہ بھارت ایران امریکہ چین ترکی سعودی عرب امارات اور دوسرے ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اثر پاکستان پر براہ راست پڑ رہا ہے اور یہ کام پوری توجہ کے ساتھ کرنے کا ہے جس کے لئے فوج کو اختیار بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ تعاون کی بھی ضرورت ہے اور ملکی استحکام کی بھی۔
غور سے دیکھیں تو آپ شکر ادا کریں گے کہ پاکستان اس وقت ان مشکلات اور جنگ و جدل کے خطرناک دلدل میں اس طرح گرفتار نہیں ہے جیسے سارے ہمسایہ ممالک۔ چوری اور لوٹ مار کے دو لمبے دور گزر گئے اور چور پکڑے بھی گئے اور ان کو سب کے سامنے کپڑے اتار کر کھڑا کر دیا گیا۔ اب جو سیاست چل رہی ہے وہ صرف شرمندگی سے بچائو، ملک سے بھاگو، جھوٹے الزام لگائو اور میڈیا میڈیا کھیلنے تک محدود ہے۔
اب بڑے کام عدالتوں اور الیکشن کے نظام میں تبدیلی، عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلانا اور بے شمار ایسے کام کرنا جو حکومتیں روزانہ کی بنیاد پر دنیا بھر میں کرتی ہیں جیسے پانی، گیس اشیائے خورونوش صفائی، صحت، تعلیم مہیا کرنا۔
ان تمام نکات میں عمران خان کی حکومت کہیں کامیاب ہوتی اور کہیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں ساری مخلوط اور جمہوری حکومتیں اسی طرح چلتی ہیں۔ لڑھکتی اور رگڑے کھاتی آگے بڑھتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ نئے الیکشن آ جائیں اور پھر لوگوں سے ووٹ لینے نکل پڑیں۔ میں نے وزیر اعظم کے ایوان سے پوچھا کہ آج کل ان کو کیا سب سے بڑی مشکل درپیش ہے۔ جواب آیا سب ایک صفحہ پر ہیں کوئی کسی سے اختلافات نہیں مگر میڈیا کے کچھ حصے جان بوجھ کر ان کی حکومت کو جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈا کر کے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کچھ اسلام آباد کے اچھے اخبار نویس بھی کہہ رہے ہیں کہ میڈیا سے خان صاحب کافی دکھی ہیں اور ایک آدھ کابینہ کی میٹنگ میں بھی میڈیا اور پیمرا کو سختی کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر قانون ابھی زیادہ سخت ہاتھ دکھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سنا ہے وزیر اعظم سوچ رہے ہیں کہ میڈیا پر پابندی لگانا تو مشکل ہے اور جمہوریت کا بھرم رکھنا ضروری ہے مگر میڈیا کے چند ایسے حصوں کی کڑی نگرانی کی جائے جو باقی قوانین کا پاس اور اپنے معاملات میں شفافیت نہیں رکھتے مثلاً یہ سنا کہ اگر سیاستدانوں سے سوال روز ہو سکتا ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدن سے زیادہ ہیں تو میڈیا کے لوگوں اور بڑے بڑے گروپس سے بھی یہی سوال کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ سوال تو ہر اس آدمی، افسر، بزنس مین اور پروفیشنل سے پوچھنا چاہیے جو شو مارنے کے چکر میں اپنی حیثیت سے زیادہ عیش و عیاشی نہ صرف کر رہا ہے بلکہ دوسروں کو دکھا کر ان کا مذاق بھی اڑا رہا ہے۔ یہ کام شروع ہوا تو بہت سے لوگ اور میڈیا بھی پھنس سکتا ہے۔