Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Shaheen Sehbai/
  3. Pastiyaan Hi Pastiyaan

Pastiyaan Hi Pastiyaan

پستیاں ہی پستیاں

میرا ارادہ تھا کے اس ہفتے کراچی کی زبوں حالی اور دردناک صورتحال پر لکھوں گا مگر نیب اورFATF کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں اور حکومت اور حزب اختلاف کی جگت بازیاں اتنی تکلیف دہ نظر آئیں کے انکو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ کیسا ظلم ہے کہ جن لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان دوسرے ملکوں سے چن چن کر واپس لے کر آئے تھے کیونکہ وہ اپنے شعبے کے ماہر تھے اور واپس آ کر پاکستان کی خدمت کریں گے وہ مجبوراً اسلئے استعفے دے کر جا رہے ہیں کے انکے پاس یا تو دوہری شہریت ہے یا پاکستان سے باہر کہیں رہائش کا پرمٹ ہے، مگر وہ لوگ جو ہماری بڑی بڑی عدالتوں میں دوسرے ملکوں کی چھوٹی چھوٹی نوکریاں اور چاکریاں کرتے پکڑے گئے جبکہ ملک میں وہ اعلیٰ ترین وزارتوں اور عہدوں پر فائز تھے، وہ آج ریاست، حکومت اور سب کو صرف اسلئے بلیک میل کر رہے ہیں کہ اگر انکی بات نہ مانی گئی تو وہ ملک کو دنیا بھر کی بدترین بلیک لسٹ میں دھکیل دیں گے۔ نواز شریف کا دبئی کا اقامہ نکلا، خواجہ آصف ایک کمپنی میں نوکری کرتے پکڑے گئے، جب وہ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع تھے، احسن اقبال سعودی عرب میں بھی کام کرتے تھے، سارے بڑے لوگ کسی نہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھے رہے اور پاکستان میں خوب لوٹ مار کرتے رہے۔

کیا آج تک کسی نے بتایا ہے کہ بینظیر بھٹو، آصف زرداری، بلاول اور انکی بہنیں، خود شہباز شریف اور انکا خاندان کونسے اقاموں اور ویزوں پر لندن، سعودیہ، دبئی اور قطر جاتے ہیں اور مہینوں برسوں رہتے ہیں مگر ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا آپکے پاس بھی دوہری شہریت یا اقامہ ہے۔ وہ پاکستان میں سیاست کرتے ہیں خوب مزے کرتے ہیں اور کوئی اگر ان سے سوال کرے تو ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر یہ تو ایک مسئلہ ہے۔ جو نیب کے قانون میں ترامیم نون لیگ نے دی ہیں وہ ایک انوکھی مثال ہیں۔ ان 34 ترامیم کو جنکا نام 34 ٹانکے رکھا گیا ہے صرف "چوری چھپاؤ جان بچاؤ"قانون کے اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا میں شاید کہیں ایسا قانون موجود نہیں ہوگا کہ ایک ارب روپے یعنی تقریباً 60 ملین ڈالر سے کم کی چوری جائز ہوگی اور نیب اس سے کم کی چوری نہیں پکڑ سکے گا۔ پاکستان میں اور دنیا میں کون سے اور کتنے ایسے جرائم ہیں جن میں کسی کو ایک ارب لوٹنے کا موقع ملے۔ اگر ایسا قانون بن جائے تو پھر پاکستان کی کیا دنیا کی 90 فیصد جیلوں سے چوری اور ڈاکے کے مجرم رہا ہو جائیں۔ یوں تو سیاستدانوں اور بڑے بڑے حکمرانوں کو 99 کروڑ کی چوری کرنے کا لائسنس مل جائیگا اور اس طرح 10 یا 12 الگ الگ کیس کر لئے تو اربوں کی چوری معاف۔ یہ تو اچھا ہوا کے عمران خان نے اس بکواس پر لعنت بھیجی اور اپنی پارٹی والوں کو بھی ڈانٹ پلائی کہ وہ کیوں یہ تجویز لے کر انکے پاس آئے۔

ویسے تو یہ تجاویز کبھی پاس ہونی ہی نہیں تھیں مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور لیڈروں کی سوچ کتنی پست ہوگئی ہے کہ سوائے اپنی ذات کے انکو کچھ نظر نہیں آتا اور وہ قوم اور ملک کے لیڈر کہلانے میں شرمساربھی نہیں ہوتے۔ سیاست کا اب کیا یہی معیار رہ گیا ہے۔ اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو سوائے گالم گلوچ اور شور شرابے کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر اور چیخیں مار مار کر لیڈر بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو جتنا بد تمیز اتنا ہی بڑا لیڈر۔ حیران اور پریشان ریاست کے محافظ اور چوکیدار ان جوکروں کو سرکس کے مسخروں کی طرح اچھلتے کودتے دیکھتے رہتے ہیں مگرخاموش رہتے ہیں، یہاں تک کے ایسا نازک موڑ آ جائے جب انکی مداخلت ناگزیر ہو جائے۔ ایسا کئی دفعہ ہو چکا ہے۔ سینیٹ کا الیکشن ہو یا سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، بجٹ پاس ہونا ہو یا کوئی ضروری قانون، فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافہ ہو یا کوئی اور خارجہ پالیسی کا مسئلہ۔ ہر ایسے موقعے پر یہ سارے کاغذی لیڈر دم دبا کر کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر کوئی نہیں بولتا۔ تو اب اس نیب کے قانون میں ترمیم پر بھی یہی حالات نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ قانون اگست کی 6 تاریخ تک پاس کرنا ہے ورنہ خطرہ ہے کہ پاکستان کو نہ صرف گرے لسٹ میں رکھا جایگا بلکہ شاید بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ ریاست یہ خطرہ کبھی بھی مول نہیں لے سکتی تو پھر اپوزیشن کی بلیک میلنگ نہیں چلے گی۔ حکومت نے دو قانون اسمبلی سے تو ہبر ڈھبر میں پاس کروا لئے اور اب سینیٹ میں یا تو وہی فرشتوں کا طریقہ چلے گا یا پھر ایک مشترکہ اجلاس میں یہ پاس کروا لئے جاینگے۔ نیب کا قانون ابھی بھی ٹھیک ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا اور نیب کی کارکردگی بہت کمزور ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی حکم دے دیا ہے کے 120 اضافی عدالتیں بنالی جائیں اور جلدی جلدی کیس چلائے جائیں۔

حزب اختلاف نے 34 ٹانکے لگانے کی کوشش میں اپنے آپ کو بالکل ہی ننگا کر لیا ہے۔ یعنی اب تو کہنے کو بھی کچھ نہیں رہا سوائے معافی مانگنے اور ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک کر رونے کے۔ کبھی کسی نے سوچا تھا کے ملک میں ایسی پستی آئے گی اور قوم کے بڑے بڑے لیڈر ایسے نیچے گر کراپنے آپ کو مذاق بنا لینگے۔ اوپر سے نیچے تک سب کا یہی حال ہے۔ نواز شریف چکر بازیاں کر کے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن جا بیٹھے اور انکے فرار ہونے پر ساری پارٹی رس گلّے کھاتی رہی۔ انکی بیٹی کبھی قوم کی رہنما بن کر ٹرک پر سوار ہو کر عزت مانگنے کھڑی ہو جاتی ہیں یا مہینوں کونے میں مایوں بیٹھ جاتی ہیں۔ انکے چچا کبھی بیمار اور کبھی بہت بیمار ہو جاتے ہیں مگر درپردہ چھپ چھپ کر درخواستیں کرتے رہتے ہیں کہ معافی دے دی جائے، سامنے آ کر بات کرنے سے گھبراتے ہیں حتیٰ کے اپنے پوتے کے برابر بلاول کو بھی لیڈر ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مولانا ان سب کو ہر وقت دستیاب رہتے ہیں اور اپنی عمر اور بزرگی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اتنے بدنام ہو گئے ہیں کے اب نیب نے انکی طرف بھی غور سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور خبریں ہیں کہ انکے اور انکے خاندان کے بارے میں بھی تفتیش شروع ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں انکی دولت اور جائیداد انکی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ جب عمران خان کی حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے اپنے اثاثے بتا دیے تو پھر مولانا صاحب اور انکے بھائی اور بیٹے بھی اسی ترازو میں تولے جائینگے۔ عمران خان تو ایک ہی ایجنڈا لے کر آئے تھے اور وہ تھا احتساب۔ اب 2 سال بعد انھیں کوئی بڑی کامیابی تو ملی نہیں مگر اتنا ضرور ہوا ہے کے سارے بڑے بڑے لوگ احتساب کی چکی میں پھنس گئے ہیں اور اب بڑی عدالتیں بھی اس بات پر تیار ہیں کہ یہ عمل تیز سے تیزتر کیا جائے۔ خود عمران خان توشاید بچے رہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ اگر انکی پارٹی اور انکی حکومت میں کوئی ذرا بھی گڑ بڑ کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ فوری طور پر ایکشن لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کرپشن اور بے ایمانی کو روکنے کا یہی طریقہ ہے۔ چوری اور بددیانتی انسان کی فطرت کا حصّہ ہے بعض لوگ اس پر قابو پا لیتے ہیں اور بعض نہیں۔

ایک دوست نے بہت افسوس کے ساتھ پوچھا کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہے کہ صرف ایک ادارہ یعنی فوج ابھی تک مضبوط اور قائم ہے اور فوجی چاہتے ہیں کے انکے ادارے پر تنقید نہ کی جائے حالانکہ 73 برسوں میں فوج نے بھی کئی غلطیاں کیں ہیں۔ سوال تو بھاری تھا مگر میں نے کہا فوج پر ضرور تنقید ہونی چاہیے مگر تنقید کرنے والا فرد یا ادارہ خود بھی تگڑا قابل بھروسہ اور معتبر ہونا چاہیے۔ اگر وہ خود کیچڑ میں دھنسا ہوا ہو تو وہ کسی اور پر کیا تنقید کرے گا اور آجکل کی ہماری سیاست اور معاشرے میں کتنے افراد گروہ یا ادارے ایسے ہیں جو اس معیار پر پورے اتر سکتے ہیں۔ بہت نظر دوڑائیں تو کسی کسی شعبے میں اکا دکّا لوگ ہی کہیں کہیں نظر آئیں گے ورنہ تو ہر جگہ پستیاں ہی پستیاں ہیں۔ میرے دوست آگے کچھ نہیں بول سکے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.

 

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik