پاکستان میں کوئی این آر او کا سوچ بھی نہیں سکتا
پاکستان کے ایک سینئر بیورو کریٹ جو حال ہی میں اہم عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں جب ان کو ایم ای آر کی رپورٹ دکھائی اور تبصرہ کرنے کو کہا تو ان کا کہنا تھا کہ قریب تھا رپورٹ پڑھنے کے بعد مجھے ہارٹ اٹیک آ جاتا۔ اس کا ہمیں پہلے علم کیوں نہ ہو سکا۔ یہ رپورٹ 40 سفارشات پر مبنی ہے اور ہر ایک میں 695پیرا گرافس میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ان پر کتنا عمل کیا ہے اور کن پر ابھی عمل ہونا باقی ہے، کن پر عمل شروع ہوا ہے۔ ان 40سفارشات میں سے صرف ایک، جی ہاں صرف ایک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد ہوا ہے اور یہ مالیاتی اداروں کے رازداری کے قوانین کے بارے میں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک پاکستان معاملات کو التوا میں ڈالنے اور لٹکانے کی پالیسی پر ہی گامزن رہا ہے۔ 9سفارشات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر گو عملدرآمد ہو رہا ہے اور ان میں عدم تسلسل اور طریقہ کار کی خامیوں اور قوانین کی عدم موجودگی کی نشاندہی کی گئی اور درستگی کا کہا گیا ہے، 25سفارشات پر جزوی عمل درآمد بارے بتایا گیا ہے۔
ایم ای آر کی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ بنکوں کو آپریشن میں کمزوریوں کاسامنا ہے۔ کس طرح نیب کے قوانین کو مزید سخت کیا جا سکتا ہے۔ سٹیٹ بنک کہاں کہاں اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے۔ حوالہ اور ہنڈی کس طرح جاری ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیونکر ناکام ہیں۔ کس طرح ایان علی ایسے کردار منی لانڈرنگ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قومی پالیسیوں میں کہاں کہاں خامیاں ہیں، کس طرح قربانی کی کھالیں دہشت گردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہوتی ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کہاں کہاں خامیاں ہیں۔ کس طرح ٹرسٹ اور وقف املاک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کس طرح منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ ایم ای آر کی رپورٹ میں یہ تذکرہ بھی موجود ہے کہ کس طرح کرپٹ سیاسی اشرافیہ قانون کی گرفت سے بچ جاتی ہے۔
رپورٹ میں 2013ء سے 2018ء تک مختلف اداروں میں زیر تفتیش معاملات کی تفصیلات بھی درج ہیں جن کے مطابق پاکستان کے مختلف تحقیقاتی اداروں نے 2420کیسز کی تحقیقات کیں جن میں سے صرف 354مقدمات بنائے گئے مگر کوئی ایک بھی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ انسداد منشیات کے ادارے نے 1528کیسز کی تحقیقات کیں 161 مقدمات عدالت گئے مگر کسی ایک کیس میں بھی ملزمان کو سزا نہ ہو سکی۔ ایف آئی اے میں 346معاملات کی چھان بین کی 175کیسز عدالتوں میں گئے ایک کو بھی سزا نہ ہوئی، نیب جس کے احتساب کو چار عالم غوغا ہے نیب نے 32معاملات کی تفتیش کی 2ریفرنس دائر ہوئے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔ ایف بی آر آئی آر میں 510 مشکوک معاملات کی چھان بین ہوئی 12مقدما ت قائم ہوئے کسی ایک کو بھی سزا نہ ہو سکی۔
ہم جانتے ہیں کہ اثاثہ جات کی تحقیقات کا یونٹ کیوں قائم کیا گیا جس کی سربراہی شہزاد اکبر کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح بدعنوانی، ڈرگ ٹریفکنگ، فراڈ، ٹیکس چوری، سمگلنگ اور انسانی سمگلنگ اور دیگر منظم جرائم کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کیا گیاہے۔ رپورٹ کے پیرا گراف نمبر 15کا آغاز اس نوٹ سے کیا گیا ہے" کرپشن پاکستان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے" رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان نے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ رپورٹ میں میاں نواز شریف کے کیس اور سزا کو مثال بھی بنایا گیا ہے۔ ان تمام خوفناک محفوظ کارڈز کے ہوتے ہوئے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کی اکتوبر کی اسیسمنٹ کا منتظر ہے کہ پاکستان نے کن شرائط پر عمل کیا اور کن پر عمل نہ ہو سکا۔
ان حالات میں کوئی بھی صحیح العقل انسان وقتی مفادات اور سیاسی استحکام کے لئے کرپشن اور لوٹ کی سیاست کو این آر او دینے کی تائید نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں عمران خان، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہاں تک کہ عدلیہ اس حوالے سے کسی قسم کے سمجھوتے کی پوزیشن میں نہیں۔ خاص طور پر جب اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس سے منتقل ہونے کے شواہد موجود ہوں جو ایف اے ٹی ایف کی سفارشات اور قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس لئے جب اپوزیشن نے نیب کے پر کاٹنے کے لئے 34نکات پیش کئے تو یہ عمران خان کے لئے کلی طور پر ناقابل قبول تھے۔ یہاں تک کہ اگر کہیں کرپٹ سیاستدانوں کے بارے میں کوئی نرم گوشہ موجود بھی ہو، اپوزیشن جتنا مرضی شور کر لے جتنے بھی گھٹیا حربے استعمال کر لے پاکستان اپنی سمت سے ہٹنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
عمران خان کو ابھی بہت سے اقدامات کرنا ہیں اور کارکردگی دکھانا ہے۔ عمران خان کو ادراک ہے کہ اگر پاکستان سفارشات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اپوزیشن نے نیب بل کو سینٹ میں مسترد کر دیا تو حکومت نے مشترکہ اجلاس میں بل پاس کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت کو ہر حال میں یہ بل پاس کروانا پڑے گا۔ عمران خان نے درست کہا ہے کہ اپوزیشن ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے اور ایسا صرف کرپشن چھپانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اب یہ بل پاکستان کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے پاکستان کے تمام طبقات سول ملٹری اور عدلیہ سب کو بدعنوانی کے حوالے سے ایک پیج پر آنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کو بدعنوانی کے خلاف جنگ جیتنا ہے۔ اگر پاکستان کرپشن کے خلاف جنگ میں ہار گیاتویہ جنگ پاکستان کو اندھے کنویں میں دھکیل دے گی۔ اب پاکستان کے عسکری اداروں، سیاستدانوں عدلیہ، تاجر برادری یہاں تک کہ مذہبی حلقوں کو اس جنگ میں شامل ہونا پڑے گا اور اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کے پاس ایک ہی آپشن ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی آپشن نہیں۔ (ختم شد)