Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Shaheen Sehbai
  3. Corona Ne Khan Ko Tahamul Sikha Diya

Corona Ne Khan Ko Tahamul Sikha Diya

کرونا نے خان کو تحمل سکھا دیا

وزیر اعظم عمران خان نے 24مارچ کو میڈیا کے کچھ اینکرز کو بلا کر اپنی حکومت اور خود کو ان کے سامنے پیش کیا اور سارے کڑوے تیکھے اور بدبودار سوالوں اور تبصروں کا جواب دیا۔ اس طرح کی میڈیا بریفنگ امریکہ کے صدر ٹرمپ بھی تقریباً روزانہ ہی کرتے ہیں مگر ایک فرق صاف نظر آتا ہے۔ ٹرمپ صاحب کو کچھ مہینے بعد الیکشن کا سامنا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ کرونا کی تباہ کاریوں کو کم کر کے بتائیں، لوگوں کو امید دلائیں۔ جو ان کی چار سالہ معاشی کامیابیاں تھیں ان کا بالکل صفایا ہی نہ ہو جائے۔ ٹرمپ نے شروع میں کرونا کو ایک مذاق (Hoax) کہا اور لوگوں سے کہا اس کو زیادہ سیریس نہ لیں، پھر جب نقصان ہونا شروع ہوا تو لوگوں نے بالکل ہمارے وزیر اعظم کی طرح ان کو بھی الزام دینا شروع کر دیے کہ وہ کچھ نہیں کر رہے۔ جب مغربی سرحد پر کینیڈا سے جڑے امریکی شہر سیاٹل جو واشنگٹن کی ریاست میں ہے(اس کا امریکی دارالخلافہ واشنگٹن ڈی سی سے کوئی تعلق نہیں ) اچانک کرونا نے حملہ کیا اور کئی ہزار لوگ بیمار ہونا شروع ہوئے تو ٹرمپ کی حکومت کو جھٹکا لگا اور پھر اسی ریاست کے جنوب میں کیلیفورنیا میں جہاں ہالی ووڈ بھی واقع ہے یہ وبا پھوٹی، تو ٹرمپ صاحب نے اپنا مذاق چھوڑ کر ایک فوری کرونا ٹاسک فورس بنائی اور ملک کے بڑے ڈاکٹر اور وبائی امراض کے بڑے اداروں میں موجود سہولیات کو جب دیکھا تو ہوائیاں اڑنے لگیں کہ ملک میں نہ پوری تعداد میں ماسک تھے نہ ہاتھ صاف کرنے کی بوتلیں اور نہ سانس بحال کرنے کے لئے آکسیجن اور وینٹی لیٹر۔ پھر مغربی سرحد سے کرونا نیویارک میں نمودار ہوا اور کیونکہ نیو یارک کے کئی علاقے اور بڑی بڑی آبادیاں بالکل پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کی طرح ہیں، وہی لوگوں کا رش، بچوں کی بھرمار، صفائی کا فقدان اور کسی حکومتی اعلان کو نظر انداز کرنے کی عادت، پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا اور حکومت کو نظر نہیں آ رہا تھا یعنی تین شہروں سے پھیل کر پورے امریکہ میں آج تک 60 ہزار کیس آ گئے اور 830 اموات ہو چکیں۔ ٹرمپ صاحب نے مذاق کی باتیں کر کے جو وقت ضائع کیا اس کی وجہ سے اب سارے جہاز اور فلائٹیں بند ہیں۔ پورے کے پورے شہر لاک ڈائون میں ہیں اور سارے کھیل، سینما، تھیٹر، پارک، ساحل سمندر، بند ہیں۔ وبا قابو میں نہیں آ رہی، نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا، خود صدر ٹرمپ اور نائب صدر اور ان کی اہلیہ کے ٹیسٹ ہو چکے، کئی سینیٹرز اور اسمبلی کے ممبر گھر میں قید ہیں۔ کینیڈا کی خاتون اول آئی سی یو میں داخل ہیں اور ایک دل ہلا دینے والی ویڈیو اپنے کمرے سے ریکارڈ کر کے نشر کی ہے۔ جب ہوش آیا تو اب امریکہ اپنی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج اپنے عوام، کمپنیوں، ایئر لائن اور سیاحت یعنی ہوٹل، پارک، کھانے پینے کے مقام اور ہر شہری کو تقریباً دو کھرب ڈالر یعنی 300کھرب روپے فوری طور پر بانٹے گا۔ امیر ملک اس قسم کے فیصلے کر سکتے ہیں اور پہلے بھی اپنے ملک کے لئے کرتے رہے ہیں۔

اب آ جائیں پاکستان۔ یہاں کیا ہوا اور ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے دو تقریریں کیں، وہ بھی کافی سوچ بچار کے بعد۔ ان کا کہنا تھا کہ سوائے تفتان کے اور کہیں سے کرونا کا حملہ نہیں ہوا، وہاں بھی حالات قابو سے باہر ہی تھے۔ کچھ سو لوگوں کو وہاں کیمپ لگا کر رکھا گیا۔ مگر وہ پاکستانی عادت کے مطابق وہاں سے نعرے لگاتے جلوس میں نکل آئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان میں کوئی قانون تو ہے نہیں اور انہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ وہ کافی حد تک سندھ اور پنجاب میں پھیل گئے۔ باقی لوگوں کو الگ رکھا گیا مگر ہمارے لوگ ان معاملات میں خود کو بھی دھوکا دیتے ہیں، حکومت کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ بعض وقت رمضان شریف میں اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کے حکم نہ ماننا اور ہوا میں اڑا دینا، بہادری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ایک طرف یہ عوام ہیں جنہیں خطرے کا یا تو علم نہیں یا وہ خطروں سے کھیلنا جرأت اور بہادری سمجھتے ہیں اور موت اور زندگی کا مسئلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس معاشرے میں عمران خان کی حکومت کو یہ چیلنج ملا کہ وہ ہر شخص کو کرونا سے بچا کر رکھیں، سب کو ہسپتال اور ماسک دیں اور اگر گھروں سے باہر نہ نکل سکیں تو ان کو کھانا بھی گھر پہنچائیں۔ یہ سب 22کروڑ کی آبادی کے لئے جہاں کہنے کو تو چار صوبے ہیں اور ان کی اپنی حکومتیں ہیں، مگر الزام دینے کے لئے سب سے آسان ہدف وفاقی حکومت۔ وہ اس لئے کہ وزیر اعظم سختی نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت کمزور ہے، میڈیا اور حزب اختلاف سب ڈنڈے لے کر حکومت کے سر پر سوار رہتے ہیں۔

میرے خیال میں اس طرح کی صورتحال اگر صدر ٹرمپ یا بھارت کے مودی کو درپیش ہو تو وہ بھی ہاتھ اٹھا دیں مگر خان صاحب نے "گھبرانا نہیں " ہے کے نعرے کو نہ صرف خود اچھی طرح نبھایا ہے بلکہ عوام سے بھی بار بار یہی کہتے ہیں۔

ان کے میڈیا سے جو سوال جواب 24 مارچ کو نشر کئے گئے وہ ایک دلیرانہ قدم تھا کہ سارے بڑے بڑے خود ساختہ ماہرین اور ہر شعبے کے ماہرین، یعنی ہر اینکر نہ صرف سیاست، صحافت، معیشت، صحت اور انتظامیہ اور حکومت کرنے کا ماہر بلکہ پرجوش ناقد بھی، ان کو اکٹھا کر کے براہ راست TV پر سوال کرنے اور جواب دینے کا موقع دینا اور زیادہ تر جواب بھی خود ہی دینا۔ سو سوال ہوئے اور لوگوں نے طنز اور تنقید کے تیر اور راکٹ بھی برسائے مگر خان صاحب تیار نظر آئے اور ان کی ٹیم بھی تیار تھی۔ میرے خیال میں ہر ایک سوچ رہا تھا، میرا سوال حکومت کو لاجواب اور بے بس کر دے گا اور میری بڑی واہ واہ ہو جائے گی۔ درحقیقت میڈیا والوں کا سب سے بڑا انعام بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ ایسا سوال کریں کہ اگلا جواب ہی نہ دے سکے اور لوگ کہیں کہ واہ کس پائے کا صحافی ہے اور کیا سوال کیا۔ جواب سننے کی ہمت نہیں ہوتی اور ان کو کوئی غرض بھی نہیں کہ کیا جواب دیا گیا۔ تو اپنی میڈیا کی محفل میں کئی صحافی اپنی طرف سے چوکے اور چھکے لگاتے رہے مگر خان صاحب نے سب کے بڑے تحمل اور حوصلے سے جواب دیے۔ ایسی بریفنگ کئی جمہوری ملکوں میں بھی نہیں ہوتیں اور اس طرح کے سوال بہت کم ہوتے ہیں۔ مگر اس ساری گفت و شنید میں ایک بات کھل کر سامنے آئی اور یہی بات اکثر سوالوں میں بھی نمایاں تھی۔ پچھلے کئی دنوں میں صوبوں میں اور کئی لیڈر الگ الگ اور اپنی اپنی پالیسیاں بتاتے رہے۔ شٹ ڈائون، لاک ڈائون، کرفیو، دفعہ 144، بسیں بند، ٹرینیں بند، جہاز بند، سڑکیں بند سب کا الگ الگ اعلان ہوتا رہا۔ کبھی کہیں سے اور کبھی مرکز سے۔ کبھی کہا گیا لاک ڈائون ہو گا کبھی کہا گیا نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نے اپنی بریفنگ میں ان تمام باتوں کا جواب دیا۔ کچھ سمجھ میں آنے والی باتیں تھیں اور کچھ نہیں کیونکہ وہ خود کہہ رہے تھے کہ ساری بات ہر وقت سب کو نہیں بتائی جا سکتی کیونکہ اس کی وجہ سے خوف اور بدامنی اور ہیجان اور افراتفری یعنی Panic پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے، جو زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق صوبوں نے وہ اعلان کئے جو انہیں کرنا ضروری تھا۔ مقامی انتظامیہ نے اپنے علاقوں کے لئے فیصلے کئے۔ ان سب الگ الگ کوششوں کا تاثر یہ ابھرا کہ کوئی مرکزی حکومت ہے ہی نہیں اور نہ جانے کون ملک کی کشتی چلا رہا ہے۔ یہی سوال ہمارے دوست محمد مالک نے وزیر اعظم سے پوچھ بھی لیا۔ ان کو جواب بھی مل گیاکہ ہر فیصلے کا ذمہ دار وزیر اعظم ہے اور رہے گا۔ یعنی ایک بات تو اب سب کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سوچ سمجھ کر اور جان بوجھ کر ذمہ داری سے ہو رہا ہے نہ کہ ایک کشتی بغیر کسی کپتان کے ادھر ادھر ڈول رہی ہے۔

مگر سارے سوال ہو گئے اور جواب بھی آ گئے مگر میرا ایک سوال پھر بھی رہ گیا اور کسی نے نہ پوچھا اور نہ جواب دیا گیا۔ وہ یہ کہ جب حکومت کے سامنے ساری صورت حال ہے اور وہ 24 گھنٹے ہوشیار ہے اور سب مل کر تیاری بھی کر رہے ہیں اور حالات کے مطابق اپنے فیصلے کرنے اور تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار ہیں تو عوام میں اور خاص کر میڈیا میں یہ تاثر کیوں ہے کہ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور کسی کو نہیں پتہ کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ کئی لوگوں سے بات کی اور حکومت والوں سے بھی۔ آخر نکتہ یہ نکلا کہ کیونکہ اس وبا کا اندازہ کرنا ناممکن ہے تو کوئی لمبی پلاننگ نہیں کر سکتا اور روزانہ کی بنیاد پر فیصلے کرنا ضروری ہے۔ جہاں سخت اقدام ضروری ہوں وہاں سختی کی جائے اور جہاں آرام سے کام چلے وہاں زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ٹھیک ہے یہ سب مان لیا جا سکتا ہے مگر پھر بھی دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں ایک ادارہ کیوں نہیں جو ان تمام روزانہ کی بدلتی ضرورتوں کا حساب رکھے اور وہی ادارہ اعلان کرے کہ کہاں کیا کرنا ہے۔ کہاں لاک ڈائون ہو گا۔ کہاں کرفیو لگے گا۔ کہاں مریض پہلے جائیں گے اور کس طرح باقی لوگوں کو گھر وں میں رہنے پر مجبور کیا جائے گا۔ جب جواب نہ ملا تو میں نے خود وزیر اعظم سے یہ سوال کر ڈالا اور ساتھ یہ منظر بھی ان کے سامنے رکھا کہ کیوں نہ آپ ایک کرونا ٹاسک فورس بنائیں۔ ہر صوبہ کا ایک نمائندہ اس میں شامل کریں۔ باقی اداروں کو بھی جگہ دیں اور پھر ہر اعلان اور ہر فیصلہ یہ ٹاسک فورس کرے، جو لوگ شامل کئے جائیں ان کے نام بھی بتا دیں تاکہ صرف وہی اپنے صوبے یا ادارے کے متعلق جامعہ اعلان کرے اور یہ بے ہنگم اور افراتفری کی فضا ختم ہو اور لوگوں کو یقین ہو کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں ٹاسک فورس تمام فیصلے کر رہی ہے۔ فوراً جواب آیا Good Point اب یہ اچھا نکتہ آگے کوئی اچھی امید میں بدلے گا یا صرف کرونا کے اگلے حملے کا انتظار کرے گا۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.

 

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad