سقو ط ڈھاکا…غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں
16 دسمبر1971 ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا المناک سانحہ ہے کہ جس کے تذکرے سے ہی تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ہے۔ 49 سال گزرنے کے باوجود ہم یہ تعین نہ کر سکے ہیں کہ اس سانحے کی اصل اور مرکزی وجہ کیا ہے۔
کبھی ہم ایک ملک تھے، اب مشرقی پاکستان ہم سے جد ا ہو کر ایک نیا ملک بن گیا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ ہمیں اپنی تاریخ کو بھولنا نہیں چائیے اور اس سے سبق حاصل کرنا ہے۔ اس سانحے کے بعدپاکستان میں جو بھی حکومتیں آئیں وہ ان ہی عناصر پر مشتمل تھیں کہ جن کی جانب مشکوک نظرں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حقائق سے پردہ نہ اٹھایا گیا۔
1971 میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو یحییٰ خان صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر، وزیر اعظم اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ پھر جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹواور نواز شریف بھی آئے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اس وقت تک عوام سے پوشیدہ رہی جب تک انڈیا کے اخبارات نے اس کے کچھ مندرجات کو اخفاء کرنا شروع کر دیا۔ صدر مشرف کو مجبوراً اس کے کچھ حصے پبلک کرنا پڑے۔ اس رپورٹ کے جو حصے پبلک کیے گئے ان میں بڑے کردار یحییٰ خان پھر بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن نظر آتے ہیں۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے حوالے سے کچھ راز داں حضرات سے جب میری بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے یہ رپورٹ پوری طرح پڑھی ہے، اس رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے، اس رپورٹ کی بنیاد پر منتخبہ افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے اور وہ کسی بھی طرح قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ سب جرم کے مطابق قانونی سزا کے حقدار ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اب تک حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی عوامل سے جب تک پاکستان کا عام شہری با خبر نہ ہو گا، اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کر سکیں گے۔ جس طرح صحیح تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں، اسی طرح غلطیوں کا ادراک کیے بغیر اصلاح کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب عوام حکمرانوں سے گزشتہ 49 سال سے پوچھ رہے ہیں۔ سقوط ڈھاکا عالمی سازش تھی یا ہماری غلطیوں کا انجام اس کا جواب حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دیدیا لیکن عام آدمی کی رسائی سے یہ رپورٹ دور ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد (جو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں ) نے ان افراد کے خلاف نہ صرف مقدمات قائم کیے بلکہ ان کو پھانسی بھی دی جو 1971 میں تحریک بنگلہ دیش کے خلاف اور پاکستان کے حامی تھے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جن کا ملک دولخت ہو گیا۔ ہم ان کرداروں پر مقدمات تو چلانا درکنار ان کے جرائم سے بھی قوم کو بے خبر رکھے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پوری طرح آشکار کیا جائے۔ اسے ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کے وکلاء اور سول سوسائٹی اس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان توڑنے والے کرداروں کے خلاف مقدمات عدالت میں لے کر جائیں۔ قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ ممبران پارلیمنٹ، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔
جب تک ہم اپنی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے کے اسباب و عواقب اور حالات سے بے خبر رہیں گے یہاں عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے بڑے واضح انداز میں ان صاحب اختیار لوگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کھلی عدالت میں مقدمہ یا کورٹ مارشل کیا جانا ضروری ہے۔ آج کے دور میں جب کہ ملک میں جمہوری حکومت ہے، عدلیہ آزاد، غیر جانبدار اور قومی امنگوں کے مطابق کام کر رہی ہے۔ میڈیا بھی مثالی کردار ادا کر ریا ہے تو یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تاریخ پاکستان کے اس تلخ باب کے حقائق کو اس طرح سامنے لائیں کہ آیندہ آنے والی نسلیں اور حکومتیں ان غلطیوں کو نہ دوہرائیں۔
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی۔ جس طرح یحییٰ خان کے بعد بھی ہم آمریت کو نہ روک سکے۔ یحییٰ خان کے بعد ضیاء الحق گیارہ سال تک اور مشرف 9 سال تک حکمران رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک آج بھی زیرو پوائنٹ پر ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں۔
میری پاکستان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی گذارش ہے کہ وہ سقوط ڈھاکا کے حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیں اور تفصیلی بحث کریں۔ ہمارے ملک میں ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ جن میں روئیداد خان ان ایام میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات تھے۔ مصطفی کھر، ایس ایم ٖظفر، بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔
احمد رضا قصوری جو 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور بھٹو کی مرضی کے خلاف ڈھاکا میں مجوزہ اور متنازعہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے۔ جنھوں نے اس سارے سانحے کے منظر نامے کو دیکھا۔ قوموں کی تاریخ میں آزمائشوں اور چیلنجز کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ تاریخ کا دھارا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔
سقوط ڈھاکا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ دیں، آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین