قائد اعظم محمد علی جناح ؒ …دنیا کی نظر میں
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا145 واں یوم پیدائش دو دن پہلے جمعہ کے دن منایا گیا۔
قائداعظم کی شخصیت اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا پیرو کار بننے کا دعوی تو پاکستان کے سیاسی حکمرانوں اور سیاسی قائدین ہروقت کرتے ہیں لیکن کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو قائد اعظم کا پاسنگ تو ہونا در کنار، ان کا چوتھائی بھی بن سکا ہے؟ 1947سے لے کر 2020 تک پاکستان کے تمام حکمرانوں اور نئے پاکستان کے دعوے داروں کے کردار اور اطوار کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے، تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔
بانی پاکستان کے حوالے سے ہماری تدریسی کتابوں، سیاسی قائدین کی تقریروں اور ذرایع ابلاغ میں لکھے جانے والے مضامین بھی ہم سب پڑھتے رہتے ہیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم عصر سیاستدان، دانشور اور تاریخ دان ان کی شخصیت، کردار اور صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس کا مختصر سا جائزہ پیش خدمت ہے۔
سر آغا خان کہتے ہیں کہ ان تمام سیاست دانوں میں جنھیں میں جانتا ہوں۔ کلینو، لائیڈجارج، چرچل، کرزن، مسولینی اورمہاتما گاندھی ان کے مقابلے میں قائداعظم کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے عظیم ہیں۔
محمد علی جناح "قائداعظم" کے محبوب لقب سے پکارے گئے۔ سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا، اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بھی کہلائے۔ مگر جب ہندو قیادت کے متعصبانہ ذہن نے ان پر ہندو عزائم کو واضح کر دیا تو انھوں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اپنی مساعی جمیلہ سے ایک طویل اور تھکا دینے والی آئینی جنگ کے صلہ میں پاکستان حاصل کر لیا۔
قائداعظمؒ کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔ قائداعظمؒ عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔ ان کے اندر وہ تینوں خوبیاں موجود تھیں جو میر کارواں کا رخت سفر کہلاتی ہیں۔ ان کے کمزور اور نحیف جسم میں ہر دم، دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
عام طور پر سیاستدان، سیاست اور حکمت عملی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جائز و ناجائز ذرایع کی تمیز نہیں کرتے۔ لیکن قائداعظمؒ کی افتاد طبع بالکل مختلف تھی، وہ دیانت داری اور راست بازی پر یقین رکھتے تھے۔ کبھی کبھار شیریں طنز و مزاح کے نشتر بھی چلاتے تھے۔ ایک دفعہ گاندھی نے ان سے کہا، " آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے"۔ جناح نے برجستہ جواب دیا، " جی اور آپ نے ہندئووں پر ہپناٹزم"۔
ایک مرتبہ دونوں رہنما اکٹھے اخباری نمایندوں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کے سامنے آئے گاندھی نے جناح سے پوچھا!" انھیں دیکھ کر آپ دل میں خوش تو ضرور ہوئے ہوں گے؟ جناح بولیِ، " میں خوش تو ضرور ہوا مگر آپ سے کم"۔ ان دونوں لیڈروں کے مزاج اور انداز فکر ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہے۔ یہ اختلاف مزاج کبھی کبھی ان کی آپس میں فقرے بازی میں بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔
ایک بار جناح نے گاندھی سے اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، "تم میدان سیاست میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ لوگ کس بات سے خوش ہوں گے۔ پھر اس کے مطابق تم اقدام کرتے ہو۔ مگر میرا نداز بالکل اس کے بر عکس ہے، میں پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا بات صحیح اور مناسب ہو گی۔ اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ بالآخر لوگ میری بات پر لبیک کہتے ہیں اور مخالفت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے"۔
سیاست کے بارے میں قائداعظمؒ نے فرمایا، "سیاست میں جذبات کی حماقت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ برائیوں کو آنسوئوں سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ جذبات کی ٹونٹی کھولنا آسان مگر اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جذبات کے طوفان میں معقول پالیسی بہہ جاتی ہے۔ مشکل موقعوں پر دماغ ٹھنڈا اور آنکھیں خشک رکھنی پڑتی ہیں تا کہ حالات صحیح نظر آئیں اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکے"۔
کراچی کے ایک پارسی مئیرجمشید نو شیرواں نے قائداعظم کے لیے کہا، "ان کی یاد بڑی دلکش ہے، انھیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔ جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور با وقار تھے۔ ان کی زندگی تنہا تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے۔ ایک دن مجھ سے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے مسلمان اقلیتوں سے رواداری برتیں "۔
(جاری ہے)