پاکستان کا سیاسی منظر نامہ۔ جمہوریت کی چھلنی؟
ملک کا سیاسی اور عدالتی ماحول اس وقت خوب گرما گرم ہے۔ اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن اسکرین عدالتی خبروں اور سیاسی بیانات سے ہمہ وقت مزین ہے۔ ایک طبقہ فکر اس صورت الحا ل سے پریشان اور دل برداشتہ ہے جب کہ دوسرے طبقہ فکر کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ایک پراسس کا حصہ ہے۔
ہمارا سیاسی اور معاشرتی نظام قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسے ہچکولوں اوربے سمت تبدیلیوں سے گزر رہا ہے جن کے باعث نہ تو ہمارا سیاسی اور نہ ہی معاشرتی نظام مستحکم ہو سکا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر ایوبی مارشل لاء تک گیارہ سال کے دوران اس تیزی سے وزرائے اعظم تبدیل ہوئے کہ بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو کہنا پڑا کہ میں اتنی بار اپنا لباس بھی نہیں بدلتا جتنی بار پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ایوبی مارشل لاء کے بعد یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران فوجی حکمران بلا شرکت غیرے ملک کے وسائل اور اختیارات استعمال کرتے رہے۔ درمیان میں مختصر وقت کے لیے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو اقتدار ملا لیکن ان دونوں کو اقتدار تو ملا لیکن پورے اختیارات نہ مل سکے۔ مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کا پانچ سالہ دور اور نون لیگ حکومت کے پانچ سال کے دوران بھی یہ دونوں وزیر اعظم حکومتی اختیارات مکمل طور پر حاصل نہ کر سکے۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین سیاسیات اور تجزیہ نگار اس پر بہت کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں۔ پاناما اور اقامہ کیس کے فیصلے میں نواز شریف کو سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
حالیہ "ہنرمند" انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو تبدیلی کے نام پر حکومت ملی گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اس حکومت نے اہلیت اور صلاحیت کے "جوہر" دکھائے ہیں اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
ملک کا سیاسی نظام جن پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار ہے، اس کے حوالے سے دو نکتہ نظر بڑے واضح انداز میں سامنے آ رہے ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کے نوزائیدہ جمہوری عمل کا فطری مظاہرہ ہے۔ پاکستان میں طویل عرصے تک فوجی آمریت اور ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت کی وجہ سے نہ تو حقیقی قیادت سامنے آئی اور نہ ہی جمہوری رویے پروا ن چڑھ سکے۔ ا ب جب کہ کچھ عرصے سے بہت حد تک عوام اور سیاستدانوں کو گل کھلانے کا موقعہ مل رہا تو اس ٹیسٹ ٹیوب جمہوری نظام کی خامیاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کی مثالی آزادی کی بناء پر سبھی اداروں اور نمایندہ افراد کی اصلیت بھی عیاں ہو رہی ہے۔
گزشتہ 12 سال کی لولی لنگڑی جمہوریت کے تجربے نے اس بات کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے کہ مقتدر شخصیات اور ملکی ادارے قومی مفاد کے بجائے ادارہ جاتی یا ذاتی مقاد کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران آصف علی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، اسفند یار ولی، الطاف حسین، محمود اچکزئی، عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں کی صلاحیتیں، مقاصد اور اہلیت کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔ اسی طرح ٹی وی چینلز اور اینکرز کی صلاحیتیں اور غیر جانبداری کا پول بھی کھل چکا ہے۔
یہ عمل اس لحاظ سے خوش آیند ہے کہ ہمارے لیڈر اپنے تئیں خواہ کسی بھی زعم میں ہوں لیکن عوام اور اہل الرائے افراد سے اب ان کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں ہے۔ ہر لیڈر اور سیاسی پارٹی دوسری جماعت اور مخالف قیادت کے منفی اعمال، کردار اور دیانت کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات کے صفحات ان لیڈروں کے حوالے سے جو شہ سرخیاں لگاتے ہیں اس کی مثال کسی بھی ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے میڈیا سے نہیں دی جا سکتی۔
عمران خان نے جن دنوں اسلام آباد میں دھرنا دیا تو ابتدائی دنوں میں انھیں انتہائی کامیاب سیاسی نتائج پلیٹ میں رکھ کر پیش کیے جا رہے تھے لیکن ذاتی عزائم کی بناء پر قوم اس دھرنے کے ثمر سے محروم ہو گئی۔ ان ایام میں انتخابی اور سیاسی اصلاحات کے نوے فی صد مطالبات حکومت ماننے کو تیار تھی لیکن عمران خان وزیر ا عظم کے استعفیٰ کے غیر آئینی مطالبے پر اڑے رہے اس طرح سب کچھ زیرو ہو گیا۔
ہماری سیاست تاریخ کا یہ سبق بھی اہم ہے کہ آمریت اور فوجی ڈکٹیٹر شپ ملک کو پٹری پر نہیں چڑھا سکے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو بالا ٓخر انھی سیاستدانوں کا سہارا لینا پڑا۔ ایوب خان نے بی ڈی سسٹم کے ذریعے، ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ اور مشرف نے بلدیاتی نظام کے ذریعے اپنے اپنے سیاسی نظام لانے کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ذاتی حکومت کو استحکام دینا چاہتے تھے۔
تصور کیجیے کہ آج ہم جس سیاسی عمل سے گزر رہے ہیں اگر امریکا، برطانیہ اور بھارت کی طرح ہمارے ہاں بھی طالع آزمائی نہ ہوتی تو ہم قیام پاکستان کے پہلے دس سالوں میں انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کو جمہوری چھلنی سے گزار چکے ہوتے اور Collective wisdom کے اصول پر ٹیسٹ ٹیوب قیادت کے بجائے ہمارے پاس بھی حقیقی قیادت ہوتی۔ اب جب کہ ہم سیاسی عمل میں تقریباً نصف صدی پیچھے ہیں تو ہمیں کمزور جمہوری نظام اور قیادت کا میسر آنا کوئی انہونی بات نہیں خوش قسمتی سے پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے سبھی طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے ہمارا ملک اس خطے کا Gate Way ہے اور اسی بناء پر دنیا کی بڑی طاقتیں امریکا، برطانیہ، روس اور چین ہمیں زیر اثر رکھنے کے جتن میں نظر آتی ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے مغربی ممالک بھی تلملا رہے ہیں یہ سب کچھ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، محنت کش عوام اور جوہری توانائی کے حامل ملک کی وجہ ہی تو ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کا سیاسی نظام اپنی غیر استحکامیت کی وجہ سے ہمارے لیے صاحب بصیرت، حقیقی نمایندہ قیادت فراہم نہ کر سکا لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان کے سبھی اداروں کے کارپردازوں، دانشوروں اور میڈیا کی اکثریت کو یہ احساس ہے کہ ہمیں اداروں کو باہم دست و گریباں ہونے سے بچانا ہے۔
جس کا عملی مظاہرہ ہم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے حالیہ فیصلے سے بھی دیکھ لیا ہے۔ فوجی قیادت بھی اب براہ راست سیاسی اقتدار کے حصول میں کوشاں نظر نہیں آتی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اگر ہمارے سیاستدان دانشمندی کی راہ اختیار کریں تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ مکمل اختیار حاصل کر لیں گے۔
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جمہویت محض قراردادیں پاس کرنے سے مستحکم نہیں ہوتی۔ جمہوریت کی آبیاری کے لیے جمہوری رویوں کو فروغ دینا لازم ہے۔ گزشتہ 12 سال کا تجزیہ کرنے سے یہ بات خاصی حد تک کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے یقینا کچھ سبق ضرور سیکھا ہے ورنہ ان 12 سالوں کے دوران کم و بیش نو یا دس بار ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی کہ جمہوریت کو لپیٹ کر با آسانی آمریت مسلط کی جا سکتی تھی۔ اس حوالے سے آصف علی زرداری اور نواز شریف کی قوت برداشت، دانشمندی اور صبر قابل تحسین رہا ہے۔ انھوں نے اس عرصے میں چند ایک غلطیوں کے سواہمارے سیاسی نظام میں جمہوری قدروں کو فروغ دینے میں جس تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس سے پہلے ان کے سیاسی سفر میں نظر نہیں آتا۔
عمران خان نے جس عزم، محنت اور ہمت سے تحریک انصاف کو سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا ہے وہ بھی جمہوری عمل ہی کا ثمر ہے۔" ہنرمند الیکشن" کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان کو اپنے رویے میں تبدیلی کرنی چاہیے تھی انھیں اپوزیشن لیڈر بننے کے بجائے ایک مدبر لیڈر کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ وزیراعظم کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ پاکستان کی پہچان ہوتا ہے۔
جمہوریت میں انتخابات ایک چھلنی کا کام دیتے ہیں، ماہرین سیاسیات اور جمہوری نظاموں پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جو ممالک تیس سے چالیس سال تک ڈکٹیٹر شپ کے تابع رہے ہوں وہاں جمہوری قدروں کو جڑیں پکڑنے میں کم از کم پندرہ سے بیس سال لگتے ہیں۔ ان پندرہ سے بیس سالوں کے دوران وہاں کم از کم چار انتخابات کا بروقت ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں تسلسل سے اب تک دو ہی انتخابات ہوئے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق ہمارے سیاسی نظام کو ابھی کچھ عرصے تک ہچکولوں سے گزرنا پڑے گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ہمیں مزید دو اور انتخابات کی چھلنی سے گزرنا ہے اس کے بعد یہ نظام اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا۔ واللہ عالم بالصواب