یوم تکبیر تک کا سفر (2)
ہمیں مسلسل وزارت خارجہ ڈپلومیٹک ذرائع اور پاکستان کے خفیہ اداروں کی طرف سے رپورٹس مل رہی تھیں اور ان اطلاعات کو جوڑ کر جو منظر نامہ بن رہا تھا وہ ہمارے مفروضوں کو سچ ثابت کر رہا تھا۔ مارچ کے آخر تک ہماری رپورٹ تیار تھی اور ہیڈ کوارٹر میں جمع کروا دی گئی تھیں بعد میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو اس حوالے سے ایک مکمل بریفنگ دی گئی ہم مکمل طور پر تیار تھے کہ اپنے سائنسدانوں کو مشن سونپ سکیں۔
13مئی کو ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے سفیر کے ذریعے ان کا ایک پیغام موصول ہوا۔ بے نظیر بھٹو ان دنوں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہی تھیں اور انہوں نے امریکہ میں یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان کو جوہری دھماکے نہیں کرنا چاہیئں۔ بے نظیر بھٹو کا خط ایک لفافے کے اندر دوسرے لفافے میں تھا۔ میں وہ پہلا شخص تھا جس نے لفافے کو کھولا اور پیغام پڑھا۔ میں نے پلاننگ روم میں بآواز بلند پیغام پڑھا تاکہ تمام لوگ سن سکیں۔ یہ خط فیروزی سیاہی سے بے نظیر نے اپنے ہاتھ سے پانچ کارڈ زپر لکھا تھا۔ ان کی یہ تجویز تھی کہ پاکستان کو ہر حال میں جوہری دھماکے کرنا چاہئیں۔ خط میں تکنیکی تفصیلات سے بے نظیر بھٹو کی جوہری حکمت عملی کے بارے میں معلومات حیران کن تھیں جو ہمارے پلان سے ملتی تھیں۔ انہوں نے جو تجاویز دی تھیں وہ ایک سچا محب الوطن ہی دے سکتا ہے اس دن انہوں نے ہر کسی کا دل جیت لیا تھا۔
بھارت کی یورینیم افزدگی کی محدود صلاحیت اور پلوٹونیم پرا نحصارنے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنے میں مدد کی کہ بھارت مندرجہ ذیل جوہری تجربات کر سکتا ہے۔
1۔ بھارت 1974ء کی طرز کے دھماکے کا تصدیقی تجربہ کرے گا۔
2۔ بھارت پلوٹونیم ڈیزائن کے مطابق ویپن سسٹم بنانے کی کوشش کرے گا بھارت تین سے زیادہ ٹیسٹ نہیں کرے گا لیکن ایک ہی وقت میں تکنیکی اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لئے وارڈ ہیڈ ڈیزائن کی جانچ کرے گا۔
3۔ آخری بات یہ کہ بھارت کے جوہری تجربات اشتعال انگیز ہوں گے اگر پاکستان ردعمل میں دھماکے کرتا ہے تو پاکستان کو عالمی دبائو اور معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے پاکستان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ فروری کے اوائل تک سفارتی ہنگامہ آرائی تیز ہو چکی تھی اور ایسی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ بھارت جوہری تجربات پر غور کر رہا ہے۔ بی جے پی کے ارکان بالخصوص اٹل بہاری واجپائی جن کے مستقبل میں وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن تھے ان کی یہ دلیل تھی کہ بھارت کے جوہری تجربات پاکستان کو ردعمل پر اکسائیں گے۔ مگر پوکھران میں جوہری تجربات کرنے کی رپورٹس حتمی نہ تھیں۔ البتہ ہمارا تجزیہ اپنے نتیجے پر پہنچ چکا تھا لیکن ہمیں اپنے مفروضوں کو ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت تھی تاکہ پاکستان اپنے آپشنز کا جائزہ لے سکے۔
ہم نے بھارت کے جوہری ارادوں سے باخبر رہنے کے لئے ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کنکشن کا بندوست کیا۔ سیٹلائٹ کے ذریعے 24گھنٹے پوکھران کی نگرانی کی جا ری رہی اور اسی وجہ سے انکشاف ہوا۔ فروری 1998ء تک پوکھران میں کوئی خاطر خواہ اور غیر معمولی حرکت نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ ہم مسلسل نگرانی کر رہے تھے تجربات کی جگہ پر بھاری گاڑیاں اور آلات منتقل ہوتے دیکھے گئے۔ مارچ کے وسط تک تصاویر سے بننے والی کہانی کھلنا شروع ہو چکی تھی اور یہ موومنٹ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی، 15مارچ کے بعد حرکت میں تیزی آنا شروع ہوئی اور ہم نے تجربات سے دو مہینے پہلے ہی یہ پتہ لگا لیا تھا۔
پاکستان پر شدید عالمی دبائو تھا۔ یہ حقیقی خطرہ بھی موجود تھا کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی بری فوج اور فضائیہ ہائی الرٹ پر تھیں اور کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تمام تر تیاریاں عروج پر تھیں۔ میری اور میری ٹیم کے یہ لمحات انتہائی اطمینان کے تھے۔ ہم نے تکنیکی اعداد و شمار خفیہ اطلاعات اور سیٹلائٹ تصاویر سے حاصل معلومات سے بروقت اور درست تخمینہ لگایا تھا۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان وقت سے ایک قدم آگے ہو اور بے خبری میں کسی نقصان سے محفوظ رہے۔ ہماری محنت سے ہی پاکستان ردعمل دینے کے قابل ہوا اور وہی انداز اپنایا گیاجو ہم نے تجویز کیا تھا ہمارے سائنسدانوں اور لاجسٹک مدد فراہم کرنے والوں کی کوشش سے ہی پاکستان کو ردعمل دینے کے لئے کافی وقت میسر آیا اور پاکستان نے جوہری تجربات کی سیریز کے ذریعے دنیا بھر میں یہ ثابت کیا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت بھارت سے بہتر ہے۔ ایسا کرنا آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی طرف سے ہم پر بھروسے سی جی ایس لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان اور ڈی جی ایم او میجر جنرل توقیر ضیاء کی ٹیم پر اعتماد کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ اسی طرح میری ٹیم بنانے والے میجر جنرل اوصاف علی اور بریگیڈیئر وجاہت مظفر کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ ہماری اس کامیابی میں تین فیکٹرز نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ پہلا قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ڈیفنس اور سٹریٹجک سٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ کی راہنمائی۔ امینہ سید کی طرف سے فراہم کی گئی نایاب کتب اور فرنچ سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر جو ہمارے مفروضات کو حقیقت ثابت کر رہی تھیں۔ بھارتی تجربات ہمارے تجزیہ سے مطابقت رکھتے تھے۔ ہمارے سائنسدانوں کے تکنیکی مسائل کے بعد ہم نے عالمی ردعمل اور اس کے پاکستان کی بجٹ سازی کے حوالے سے نتائج پر غورو فکر کیا۔
پاکستان کی جوہری ڈاکٹرائن اور خطہ میں امن کو یقینی بنانے اور بھارت سے خطہ کے مسائل کے حوالے سے مذاکرات کے لئے عملی حکمت عملی مرتب کرنے کی پالیسی کا بنیادی مقصد کم از کم دفاعی صلاحیت اور جارحیت کی صورت میں پہلے جوہری ہتھیار استعمال کرنا تھا ہماری تحقیقات کا اہم نتیجہ تھا کہ جوہری پاکستان زیادہ ذمہ دار اور زیادہ خود انحصاری کا مظہر ہو گا۔ روایتی جنگ کی صلاحیت جوہری چھتری میں بڑھ جائے گی۔ روایتی دفاعی حصار جدید اطلاعاتی نظام اور الیکٹرونک نگرانی سے مزید بہتر ہو گا۔ پاکستان کو اپنے معاملات درست کرنا ہوں گے۔ افواج پاکستان کی طرف سے قومی ترقی میں عسکری کردار کو واضح کیا گیا جس میں نظام آبپاشی ڈیموں کی تعمیر، تعلیم، صحت، ٹیکنیکل تعلیم اور توانائی کے تمام امور پر غورو فکر ہوا۔ اس پلان میں پاکستان پر عالمی پابندیوں کی صورت میں ایک مکمل منصوبہ شامل تھا۔ وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر ہم نے اندازہ لگایا کہ پاکستان کو عالمی پابندی کی صورت میں 5ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔
جنرل مشرف کے آرمی چیف بننے کے بعد جلد ہی حکمت عملی تبدیل کر دی گئی۔ کچھ معاشی اہداف کے حصول کے لئے حکمت عملی پر تیزی سے عمل شروع ہوا۔ شرح نمو میں اضافہ ہوا کارگل کی کارروائی سے بھی یہ ثابت ہوا کہ دو جوہری طا قوتوں کے درمیان محدود جنگ ہو سکتی ہے۔ 9/11کے بعد پاکستان ایک بار پھر مسائل کا شکار ہو گیا۔