سقوط وطن
شیخ مجیب الرحمن کو جب گرفتار کر کے حفاظتی تحویل میں لیا گیا اور بنگالی انٹیلی جنس سٹیشن چیف کو غیر فعال کر دیے گئے تو تمام تر ذمہ داری کرنل مسعود کے کندھوں پر آن پڑی۔ کرنل مسعود ان نتیجہ خیز ایام کی کہانی لفظ بہ لفظ بیان کرتے ہیں۔ مجیب جلال میں تھے اوربنگالی قوم پرست پرتشدد لہر شروع ہو گئی۔ وفاق کی عدم مرکزیت پر ان کا اصرار تھا۔ ان کی پرامن رہنے کی اپیل کو رد کر دیا گیا۔ کرنل مسعود لگاتار صورتحال کے بارے میں جنرل سٹاف ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ اور بریفنگ دیتے رہے مگر وہاں سے کوئی مناسب جواب نہ ملا۔ انہوں نے 23مارچ 1971ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے ایک بھر پور بریفنگ دی مگر پیپلز پارٹی نے بھی ان کی بات پر کان نہ دھرے۔ مشرقی پاکستان کی پہلے درجے کی قیادت کی گرفتاری کے بعد بنگالی قوم پرستی کی تحریک موقع پرست دوسرے اور تیسرے درجے کے لیڈروں جن کی اکثریت آرمڈ فورسز کے باغی یا ریٹائرڈ افراد تھے، کے ہتھے چڑھ گئی۔ ادھر تم اور ادھر ہم کے نعرے نے علیحدگی کی تحریک کے لئے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
چٹا کانگ سہلٹ اور سنٹاہر میں نسل کشی کی رپورٹس آنے لگیں۔ مشرقی بنگال رجمنٹ سنٹر، مشرقی بنگالی رجمنٹ اور مشرقی پاکستان رائفلز کے ریٹائرڈ بنگالیوں نے تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ جنہوں نے غیر بنگالی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ شدید دبائو میں جنرل فرمان رائو جو پہلے سیاسی سمجھوتے کے حامی تھے نے سختی برتنا شروع کی۔ جس میں ان کے بعد جنرل نیازی نے بھی جاری رکھا حالانکہ اس قسم کا خبتی پن اس قسم کے نازک حالات میں موثر نہیں ہوتا۔ کچھ نے تو رات کو اپنی بیگمات کو یہ راز بھی بتا دیا کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا ہے اور بھارت مغربی پاکستان کی فوج کو محفوظ راستہ فراہم کرے گا۔ حمود الرحمان رپورٹ کی روشنی میں یہ ضروری قرار دیا گیا کہ ایسے افراد کے خلاف چاہے وہ مر بھی چکے تھے کورٹ مارشل کیا جائے۔ یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ کیونکہ امریکہ مشرقی پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کو دبانے کے لئے پاکستان کی حمایت کر چکا تھا اس لئے یہ صورتحال میں بھی امریکہ کے قابل قبول ہوسکتی تھی۔ آخر میں سی آئی اے نے جن تبت کے باغیوں کی ٹریننگ کی تھی اور کوبھارت نے ان کو عارضی طوور پر مکتی باہنی تحریک میں خانہ جنگی کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے ہی چٹاگانگ میں نسل کشی اور فسادات کا پہلی بار آغاز کیا تھا۔ بعد میں بھارت نے مکتی باہنی کے غنڈوں کی تربیت کا کام بنگلہ دیش میں شروع کر دیا جس کا اعتراف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کیا ہے۔ کچھ عمل دخل چیف آف جنرل سٹاف ہیڈ کوارٹر کا بھی ہے جو گو مگوں کی صورتحال کا شکار تھا یہاں کسی قسم کی جنگی حکمت عملی ترتیب نہ دی گئی تھی۔
بنگلہ دیش میں فوجی حکمت عملی کمزور اور ناکام تھی۔ 7دسمبر کو پاکستانی فوج نے آخری کوشش کی تو بھارتی فوج کی طرف سے ردعمل آیا جب پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں سرنڈر کیا اس وقت تک فوج کی تمام تر ہائی کمان مفلوج ہو چکی تھی۔ فوج کو بغاوت کا سامنا تھا جب جنرل یحییٰ خان کو اقتدار بھٹو کے سپرد کرنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ تیسری وجہ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کی ناکامی تھی فوج کی کمان مکمل طور پر بے خبر تھی۔
مشرقی پاکستان میں دوانفنٹری ڈویژن کو طاقت کی کمی، اسلحہ کی قلت کا سامنا تھا خاص طور پر آرٹلری اور ایئر کور کی کمی تھی۔ لڑنے والی فورس کی تعداد 30ہزار تھی جس کے لئے 46سو کلو میٹر بھارتی سرحد کو سنبھالنا ممکن نہ تھا اس کے باوجود لیفٹیننٹ جنرل رائو فرمان نے رضا کار اور سول مسلح تنظیموں کو منظم کیا جو باغیوں اور بنگالی قوم پرستوں کے خلاف لڑ رہی تھیں اسی اقدام نے پاکستان کو دوسری شدت پسندی کی لہر میں ڈبو دیا حالانکہ جہاں کہیں ظلم ہوا وہاں ذمہ داروں کو سزا دی گئی۔ تیزی سے بدلتے حالات نے پاکستان اور بھارت دونوں کو حیران کر دیا تھا جبکہ پاکستان کی طرف سے کسی سیاسی بندوبست کو مسترد کرنے کے بعد بھی کسی قسم کی کوئی موثر عسکری منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ بھارت نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ ہم بھارت کے سی آئی کے تربیت یافتہ ایس ایف ایف کے کمانڈوز کے فعال ہونے کا انتظار کرتے رہے ان واقعات کا ایک چشم دید گواہ ابھی زندہ ہے جو 1971میں چٹا گانگ پہنچا تھا۔
مغربی پاکستان سے بحری بیڑا چٹا گانگ پہنچا۔ بندرگاہ کے قریب برہماپتر کے پانیوں میں لاشیں تیر رہی تھیں۔ جہاز کو ان لاشوں کو چیر کر ہی بندرگاہ میں داخل ہونا پڑا۔ تمام سڑکیں بہاریوں اور مغربی پاکستان کی فوج اور اس کے حامیوں کی لاشوں سے بھری پڑی تھیں جن کو بلڈوزر کے بغیر ہٹانا ممکن نہ تھا۔ چٹا گانگ کا سٹیڈیم بھی پاکستان کے حمایتیوں کی لاشوں اور خون سے لت پت تھا۔ بعد میں خون کو دھوکر لاشوں کو برہماپتر میں پھینک دیا گیا تھا جو بعد میں سمندر میں تیر رہی تھیں۔ نیتور کے قریب ایک بہاریوں کا چھوٹا سا قصبہ تھا جسے سنت بار کہا جاتا تھا یہاں تمام کے تمام بہاریوں کو قتل کر دیا گیا۔ نسل کشی کے بعد جب فوجی بٹالین کو موقع پر بھیجا گیا تو اس گائوں میں بکھری لاشوں اور خون کی وجہ سے داخل ہونا مشکل تھا۔ فوج کی انجینئرنگ کور نے سویلین بلڈوزر سے پلیٹ فارم سے لاشیں ہٹائیں صرف فوجی بٹالین نے 17ہزار بہاری مرد و خواتین اور بچوں کی لاشوں کو دفن کیا تھا بعد میں ان قبروں کو بنگالیوں کی قبریں بتا کر الزام پاکستانی فوج پر لگا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی حکومت ان افواہوں کوزائل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
یہ تو شرمیلا بوس کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب 1971ء کی جنگ کی کہانیاں۔ میں یہ انکشاف کیا کہ اپریل سے مئی تک مغربی پاکستانیوں اور بہاریوں اور پاکستان کے حمایتیوں پر نتیجہ خیز ایام میں کیا کیا قیامتیں ٹوٹیں۔ میری خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت حوصلہ کر کے اس قتل عام میں مرنے والوں کے ڈی این اے سمپل لے کر حقائق منظر عام پر لائے۔