ایک سپاہی کا شوقِ شہادت!
مچھ میں ہزارہ مزدوروں کے قتل عام نے ماضی کی المناک یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اس نے اپنے فرائض منصبی سے آگے بڑھ کر اس طرح کے سفاک قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے عظیم قربانی پیش کی۔ ہمارے پیارے کرنل سہیل عابد راجا نے فخر سندھ، فرسٹ سندھ رجمنٹ میں کمشن حاصل کیا۔ ہم اسے راجا کہتے تھے مگر وہ واقعتاً دلوں کا راجا تھا، کچھ کر گزرنے کے جنوں سے بھر، ہر دم مستعد خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کرنے والا جنونی تھا۔ جب بھی کسی مہم سے فاتح بن کر لوٹتا تو چہرے پر دلکش مسکراہٹ ہوتی اور نہایت عاجزی سے اگلی مہم کا آرزو مند ہوتا تھا۔ اس کی مہم جوئی کی خواہش اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ناقابل بیان تھی۔ اس کا کچھ کر گزرنے کا جنوں ناقابل فہم تھا۔ وہ غیر معمولی ابلاغ کی صلاحیت کا مالک تھا۔ کام کے دوران ہمیشہ اپنے سینئرز سے رابطے میں رہتا اور ماتحتوں سے اس کا رویہ دوستانہ اور پرخلوص ہوتا۔ ہر وقت دوسروں کی پریشانی کے حل کے لئے موجود ہوتا۔ اس کے سینے میں دوسروں کا درد محسوس کرنے والا دل تھا جو اس کوہر وقت دوسروں کی خاطر مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ رکھتا تھا۔ وہ حیران کن حد تک انسان دوست رویے کا مظاہرہ کرتا۔
کسی لمحے اگر اپنے ساتھی سپاہی کی شہادت پر اس کی آنکھیں نم اور سرخ ہوتیں تو دوسرے ہی لمحے نئی مہم پر جانے کا سن کر اس کا چہرہ کھل اٹھتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی شخصیت کو نکھرتے اور ملک کے لئے کچھ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ اس کی سوچ کی عکاسی اس کی تحریروں سے ہوتی تھی۔ اس کامقدر پر یقین اس کے عزم، قوت ایمان، روزوں اور تہجد گزاری نے مزید پختہ کر دیا۔ وہ مطالعے کا شوقین لکھاری اور شاعر بھی تھا۔ پاکستان کے لئے کچھ کرنے اور قربان ہونے کا جذبہ اس کی شاعری میں نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ دھایئوں میں اس کا اپنی ذہانت، لگن اور محنت سے پاکستان آرمی کی انٹیلی جنس کارپس میں بہترین افسروں میں شمار ہونے لگا۔ یہ پاک فوج کے انڈر کور اور پراسرار افراد ہوتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں وہ اپنی تخیلانہ صلاحیتوں سے نہایت جانبازی سے ملک کے لئے لڑتے ہیں مگر گمنام رہتے ہیں۔ بلوچستان میں اس نے اپنی مہم کا آغاز جذبہ شہادت سے کیا تھا۔ اسے صوبے کے غیر مستحکم اور خطرناک حالات کا بخوبی ادراک تھا۔ میں نے کیونکہ اس کی شخصیت کے نکھار میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے میں یہ بات اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں کہ جب اس کو بلوچستان جیسی خطرناک مہم میں حصہ لینے کا موقع ملا تو اس کے جذبات کیا ہوں گے، پھر اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ کیوں اس خطرناک مہم کی قیادت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے سینے میں موجود انسان دوست دل خون کے آنسو روتا تھا، وہ بار بار ہزارہ کمیونٹی سے اس عزم کا اظہار کرتا کہ ایک دن وہ ہزارہ کمیونٹی کے قاتلوں کے ماسٹر مائنڈ کو ضرور پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ 16مئی کو اس کو پتہ چلا کہ وہ سفاک قاتلوں کے ماسٹر مائنڈ کو کوئٹہ کے نواح میں کلی عالم میں پکڑ سکتا ہے اور شاید اس کام کا یہی اہم وقت ہے۔ اس نے اپنی ٹیم کو وضو کرنے کا کہا۔ نماز ادا کی گئی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں کود گیا، اس کا مشن بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے لیڈر سلمان بادینی کو ہر قیمت پر پکڑنا تھا۔ جو اس نے کر دکھایا، سرخ فیتے پہننے کے بعد اس کے فرائض منصبی میں یہ شامل نہ تھا کہ وہ خود ذاتی طور پر اس آپریشن میں حصہ لیتا مگر اس کے جذبہ اور عزم نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
ایک عام آدمی کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ایک پیشہ ور سپاہی کے دل و دماغ میں ٹریننگ سے دفاع وطن کے لمحوں تک کیا بیت رہی ہوتی ہے۔ جنرل ڈوگلس میک آرتھر نے کیا خوبصورت بات کی ہے" ایک پیشہ ور سپاہی کو تمام عمر ایک مخصوص لمحے کا انتظار کرنا ہوتا ہے جو شاید کبھی نہ آئے مگر اسے تیار رہنا ہوتا ہے۔ جب یہ لمحہ آتا ہے تو سپاہی کو اپنی جان وار کر اس کو امر کرنا ہوتا ہے"۔ راجا خوش قسمت تھا کہ اسے یہ لمحہ نصیب ہوا اور وہ اپنے شوق اور جنون کی منزل پر پہنچ گیا۔ سپاہ گیری اسی عزم اور جنوں کا نام ہے۔ سپاہی کی تربیت ہی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اس میں یہ انفرادیت پیدا کی جائے اور یہ تربیت اس میں عزم و ہمت پیدا کرتی ہے۔ ایک سپاہی اپنے خاندان اورعزیزوں سے دور زندگی گزارتا ہے۔ آپریشنل حالات میں سپاہی کا خاندان ڈر سے لڑنا سیکھ لیتا ہے۔ یہاں تک کہ کفن کا انتظار بھی کرتا ہے۔ یہی حیران کن خصوصیات سپاہیوں میں انفرادیت پیدا کرتی ہیں۔ لڑکپن کی عمر میں ایک سپاہی فوج کے تنظیمی ڈھانچے کے نظم میں آتا ہے جس کا تقاضا ہی انتہا درجے کا کوڈ آف آنر ہے۔ لڑنے یا مرنے کی سوچ ہی ایک سپاہی کو ایک جنگجو بناتی ہے یہی وہ صلاحیت ہے جو حالت جنگ میں بھی ایک سپاہی کو بے خطر آسودگی کے ساتھ جنگی حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے، یہاں تک کہ مشن مکمل ہو جائے۔ عقل ہمیشہ فائدے نقصان اور جمع تفریق میں غرق رہتی ہے جبکہ ایک سپاہی کی تربیت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہدف کے حصول کو مثبت انداز میں اپنا مقصد بنائے۔ خطرے میں سپاہی کے خون میں اضافی ایڈرنالین کا بہائو اس کو بے خوف بنا دیتا ہے۔ راجا بھی کلی عالم کی مہم کے دوران ایسی ہی جسمانی اور روحانی کیفیات سے گزرا۔
ہم سپاہیوں کی زندگی کا یہی معمول ہوتا ہے، ہر دن کا آغاز ہیلی کاپٹر کی کھڑکھڑاہٹ اور گولیوں کی بوچھاڑ میں آخری پوسٹ کی طرف بڑھنے سے ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد ملک کی عظمت اور وقار کو قائم رکھنا ہوتا ہے اور اس میں سپاہی کے لئے کمانڈ پہلے اور زندگی بعد میں اہم ہوتی ہے۔ ہر روز سے میری مراد ڈیوٹی اور اگلی منزل سے میدان جنگ میں کود جانا ہے۔ 16مئی کو یہی حالت ہمارے راجا کی تھی۔ جو محاذ پر ہر سپاہی کی ہوا کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ قوم کے پاس ایک لمحے کے لئے رک کر سوچنے کا وقت ہے؟ راجا اس لشکر جھنگوی کے خلاف لڑ رہا تھا جس کی دہشت گردی کی جڑیں پنجاب میں تھیں اور دہشت گردوں کے ایک سیاسی پارٹی سے مراسم بھی تھے۔ راجا سب کچھ جانتا تھا۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بلوچستان کے وسیع عریض علاقے کے علاوہ دریائے سندھ کے ساتھ پنجاب میں کچے کے علاقے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس تنظیم نے اپنے مذموم ایجنڈے کے لئے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سے مراسم ہی قائم نہیں کر رکھے بلکہ یہ تنظیم غیر ملکی ایجنٹوں اور داعش سے گٹھ جوڑ کر کے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث تھی۔ یہ تنظیم ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ایک مسلک کی عبادت گاہوں اور ہزارہ کمیونٹی پر حملوں کے ساتھ ہسپتالوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنارہی تھی۔ اس تنظیم اور اس کی مختلف شاخوں کے سیاسی اور انتخابی اتحاد بھی تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی خاص طور پر اس گروپ کی ناقد رہی۔ رحمن ملک جو پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ رہنے کی وجہ سے بہت حقائق جانتے تھے ان مراسم کو بے نقاب بھی کرتے رہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر دانستہ طور پرعملدرآمد نہ گیا۔ پنجاب میں امن لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی منشا کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بلوچستان میں مسلط کی گئی ہائی برڈ نوعیت کی جنگ کثیر الجہتی ہے۔ کیا ان تمام پہلوئوں پر کبھی غوروفکر کیا گیا۔
بلوچستان کے علیحدگی پسند اور گریٹر پختونخواہ کے حامی نمایاں طور پر مختلف اہداف رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں گروہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بیرونی آقا ہی ایک نہیں بلکہ ان کے مختلف دہشت گرد گروپوں سے تعلقات بھی ہیں، اس لئے اگر اس خطرے کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ گروہ پاکستان میں بھی شام جیسی صورتحال پیدا کر دیں گے۔
اسی طرح کے حالات 1973ء میں بھی تھے جب قوم پرستوں نے افغانستان اور سوویت یونین سے مل کر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازش کی تھی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سختی سے اس منصوبے کو خاک میں ملا دیا تھا۔ ان کی سفارت کاری نہایت دانشمندانہ تھی۔
راجا کو بھی خفیہ معلومات کے ذریعے یہ معلوم تھا کہ دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں۔ اس لئے اس نے جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن کے ایجنڈے کو شکست دی۔ حالانکہ آپریشن میں ذاتی طور پر شمولیت اس کے فرائض میں نہ تھی ہمارا یہ نوجوان شہید قومی ہیرو ہے جس نے شہادت پیش کر کے پاکستان میں جذبہ حب الوطنی کی نئی مثال قائم کی۔ راجا کی بھر پورکارروائی کے ردعمل میں لشکر جھنگوی نے ہنگامی طور پر فرنٹئیر کور کو کوئٹہ میں ہدف بنایا، یہاں ایف سی اور پولیس پہلے سے الرٹ تھی جس نے انہیں وہیں تک محدود کر دیااس سے پہلے کہ یہ گروپ پنجاب میں قتل و غارت کا بازار گرم کرتا۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پنجاب میں چھپی چنگاریاں جنگ کے شعلوں کو ہوا دے رہی ہیں اور شیخ مجیب دوئم پر اعتماد ہے کہ لبریشن آرمی اس کی طرف دار ہے۔