’’سب رنگ کہانیاں اور ڈائجسٹ‘‘
کتنی ساری دوپہریں تھیں اور کتنی ہی بھیگتی راتیں جو ڈائجسٹوں کے ساتھ بسر ہوئیں۔ الیاس سیتا پوری، محی الدین نواب، عبدالقیوم شاد اور کیسے کیسے نام تھے جو پڑھنے والے کو اس کے محلِ وقوع سے اغوا کرکے اپنے قلم کے اعجاز سے پیدا کردہ دنیاؤں میں لے جاتے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب رشید آباد والی اختر لائبریری اور شاہ شمس روڈ والے سہیل بک سنٹر سے کرائے پر ملنے والی ٹارزن، آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، عمرو عیار وغیرہ کی تمام کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ پھر عمران سیریز کی باری آئی، وہ بھی ختم ہوئیں تو مظہر کلیم ایم اے مرحوم کے نئے عمران سیریز کے لئے مہینہ بھر انتظار کرنا پڑتا۔ چناں چہ ڈائجسٹ کی دنیا کی طرف نکل گئے۔
یہ ایک نئی دنیا تھی، پاپولر فکشن کی دنیا۔ رفتہ رفتہ اس نے ایسا جکڑا کہ عمران سیریز وغیرہ بہت پیچھے رہ گئیں۔ ایک زمانہ سسپنس، جاسوسی، سرگذشت اور کبھی کبھار آنے والے سب رنگ کے نام ہوا۔ اب مدت ہوئی یہ سلسلہ بھی موقوف ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ عمران سیریز اور ڈائجسٹ پڑھنے پر وقت برباد کیا لیکن ایسا ہے نہیں۔ مطالعہ کا شوق انہی نے مہمیز کیا اور کہانی کہنے کا ڈھنگ بھی ڈائجسٹوں نے سکھایا۔ اب سچی بات ہے ڈائجسٹ کا بھی وہ معیار نہیں رہا یا شاید جس تواتر سے یہ چھپتے ہیں، اس مناسبت سے اچھا پاپولر فکشن دستیاب نہیں ہو پاتا، سو ایسے میں کبھی وہ گزرے دن بہت یاد آتے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ علم سے بوجھل ادبِ عالیہ اور عالمی فکشن کے تراجم کو ایک طرف ڈال کر وہ پرانے ڈائجسٹ کسی طور بہم ہوں کہ جن کی ٹائم مشین میں بیٹھ کر گئے دنوں کی سیر دیکھی جاسکے۔ تاہم اب وہ شمارے دستیاب نہیں۔ ایسے میں حسن رضا گوندل روشنی کی کرن دکھائی دیئے۔ انہوں نے سب رنگ ڈائجسٹ میں چھپنے والے تراجم یک جا کر کے اسے "سب رنگ کہانیاں " کا نام دیا ہے۔ جب تک یہ کتاب سامنے نہیں آئی ہمارے دوست رانا تصویر احمد نے بھی نہ بتایا کہ ان کا ایک دوست حسن رضا گوندل نامی ہے جو لندن میں رہتا ہے اور سب رنگ زدگان کہ فہرست میں اپنا نام سب سے اوپر درج کروا چکا ہے۔ خیر! جہلم کے ادارہ بک کارنر نے اس کتاب کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے، مواد تو دلکش ہے ہی، طباعت بھی باکمال ہے۔ گوندل صاحب نے دیباچہ میں ساری کہانی لکھی ہے کہ کس طور انہوں نے سب رنگ کے شمارے اکٹھے کئے، پھر ان کو ڈیجٹلائز کیا۔ یوں انیس سو ستر سے لے کر تادمِ اشاعت تک کے شمارے ان کے آئی فون میں محفوظ ہو گئے۔ ٹیکنالوجی تیرا شکریہ۔
سب رنگ میں دو ہی طرح کی کہانیاں ہوا کرتی تھیں۔ عالمی ادب کے تراجم یا پھر اردو ادب کا عطر۔ جناب شکیل عادل زادہ انتخاب کا معیار ایسا کڑا رکھتے کہ کبھی تو کرشن چندر جیسے ادیب کی کہانی بھی "ناقابلِ اشاعت" کے ذیل میں رکھ دی جاتی تھی۔ گوندل صاحب نے اب ان کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا ہے۔ پہلا انتخاب تراجم پر مشتمل ہے۔ اس میں تیس کہانیاں شامل ہیں۔ آئندہ کتابوں میں اردو ادب کا عطر سے انتخاب شامل ہوگا۔ گوندل صاحب سے میسنجر پر بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ سال میں تین سے چار مجموعہ ہائے انتخاب شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ ان سے گزارش کی کہ شکیل عادل زادہ تو سب رنگ کو باقاعدہ نہ رکھ سکے اور رفتہ رفتہ بند کردیا، آپ اس انتخاب کی اشاعت تھوڑی باقاعدہ کردیں۔ مثلاً اگر سال میں تین کتابیں آنا ہیں تو پڑھنے والوں کو پتہ ہو کہ ایک کتاب جنوری، دوسری مئی اور تیسری ستمبر میں آئے گی۔ انہوں نے اتفاق تو کیا، اب دیکھتے ہیں۔ بہر طور خوشی کی بات یہ ہے کہ معیاری فکشن اب باقاعدہ کتابی صورت میں محفوظ ہورہا ہے۔ جناب شکیل عادل زادہ نے "سب رنگ تماشا" کے عنوان تلے سب رنگ کی پوری کہانی تین ساڑھے تین صفحات میں کہہ دی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔ اگر ہر انتخاب میں شکیل صاحب "ذاتی صفحہ" لکھا کریں تو بڑا لطف رہے۔ تاہم یہ گوندل صاحب کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ شکیل صاحب سے لکھوا پاتے ہیں یا نہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گئے دنوں کی باس کے ساتھ ساتھ شکیل صاحب کے قلم سے کچھ تازہ بھی پڑھنے کو مل جایا کرے گا۔ ان جیسی نثر لکھنے والا اب خال ہی کوئی باقی ہوگا۔ سب رنگ میں شکیل صاحب کا ذاتی صفحہ باقی پورے شمارے پہ بھاری ہوا کرتا تھا۔
کراچی کے راشد اشرف زندہ کتابیں کے عنوان تلے بھولی بسری کتابیں پھر سے شائع کررہے ہیں۔ ان کی خصوصیت جہاں اچھا انتخاب ہے وہاں انتہائی مناسب قیمت بھی ہے۔ انہوں نے طبع زاد کتابوں کے ساتھ شکاریات، حیرت ناکواقعات، خاکوں، سوانحی واقعات کے انتخاب بھی شائع کئے ہیں۔ راشد اشرف صاحب کی مرتب کردہ کتابیں پڑھنا ایک خوب صورت ناسٹیلجک تجربہ ہوتا ہے۔ اب انہوں نے بھی گئے وقتوں کے ڈائجسٹوں سے معیاری کہانیوں کے انتخاب کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ "ڈائجسٹ کہانیاں " کے عنوان سے زندہ کتابیں سلسلہ کی 80ویں کتاب ان دنوں طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اس میں دو طویل کہانیاں اور 29 دیگر کہانیاں شامل ہیں۔ ساڑھے چھ سو صفحات پر محیط یہ کتاب بھی یقیناً دلچسپ مطالعہ ہوگا۔ خاص طور پر مجھ ایسوں کے لئے جنہوں نے اچھے وقتوں کے ڈائجسٹ پڑھ رکھے ہیں۔ اب تو ان میں سے اکثر لکھنے والے ملکِ عدم کے مکیں ہوچکے۔ رسائل و جرائد سے انتخاب پر مشتمل "ماضی کے جھروکوں سے" نامی کتاب پہلے ہی راشد اشرف کے کریڈٹ پر ہے تاہم ڈائجسٹ کہانیاں فکشنی ادب کا بہت اچھا انتخاب ہوگا۔
راشد اشرف سے گزارش ہے کہ وہ چونکہ کراچی میں ہیں تو انہیں سسپنس ڈائجسٹ کے پرانے شمارے دستیاب ہوسکتے ہیں۔ جرم و سزا کے موضوع پر ملک صفدر حیات کی وہ کہانیاں جو عبدالقیوم شاد مرحوم کے قلم سے رقم ہوئیں، خاصے کی چیز تھیں۔ ملک صفدر حیات کی کہانیوں کے مجموعے لاہور کے ایک پبلشر نے چھاپے ہیں مگر ان میں شاد صاحب کی کہانیاں نہیں ہیں۔ اگر راشد صاحب ان کا مجموعہ چھاپ سکیں تو بہت اچھا ہوگا۔
بہرحال جناب حسن رضا گوندل اور جناب راشد اشرف دونوں ہی ناسٹیلجیا کے مجھ ایسے مریضوں کا شکریہ قبول فرمائیں کہ ان کی بدولت ہم کچھ وقت اپنے لڑکپن اور جوانی میں گزار آتے ہیں اور نئے پڑھنے والوں کو معیاری پاپولر ادب تک رسائی ہوتی ہے۔