خطائے بزرگاں گرفتن خطاست
ہم دیکھ رہے ہیں سن رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ لوگ بہت منہ پھٹ، بہت گستاخ اور بہت ہی بے مہار ہوتے جا رہے ہیں اور جب سے یہ نئی بدعتیں موبائل اور فیس بک وغیرہ آئی ہیں تب سے تو ایسا لگنے لگا، کہ سب کے منہ کا زپ ٹوٹ گیا ہو، آزار بند نکل گیا ہو اور ڈھکن گر گیا ہو۔ وہ وہ سچائیاں عرف ماں بہن کی گالیاں نشر ہو رہی ہیں کہ مرد تک شرما جائیں۔
پنجابیوں اور پشتونوں کی "گالی پسندی" تو چار دانگ عالم میں فیمس ہے لیکن خواتین کے بارے میں یہ لطیفہ کافی ہے کہ ایک دن ایک خاتون سے پوچھا کہ مردوئے لوگ حجرے چوپال میں یا جہاں تہاں بیٹھ کر کیا باتیں کرتے ہیں دوسری تجربہ کار خاتون نے کہا۔ وہی جوہم تم کرتے ہیں اس پر دوسری بولی۔ ہائے اللہ یہ مردوئے تو بہت "وہ" ہیں۔ لیکن ان نئی پوچ گوئی کی مشینی اور سائنسی سہولتوں نے سب کو پیچھے چھوڑ کر پوچ گوئی کو اتنے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا کہ دو چار طالب علم بڑے آرام سے پوچ گوئی پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کسی یونیورسٹی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے صرف دو انگلیاں ہی کافی ہیں۔
دانا دانشور اور دوراندیش لوگ تو سب کچھ جانتے تھے جانتے ہیں اور جانتے رہتے ہیں اس لیے ان کو پتہ تھا اندازہ نہیں یقین تھا کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے سے پیش بندی کر گئے ہیں کہ "خطائے بزرگاں گرفتن خطاست" یعنی بزرگوں کی غلطی کو غلطی کہنا غلط ہے۔
دانا دانشور لوگ تھے اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ جو ہم کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں غلط ہے اس لیے پہلے ہی "مارشل لا" لگا گئے کہ "خبردار خطرہ 420 وولٹ"۔ یہ ہماری پہلی والی سوچ تھی جب ہم دل نادان ہوتے تھے اور ذرا سی بات پر "دل نالاں " بن جاتے تھے اور آپ کو تو پتہ ہے کہ دل تو ہے ناداں جاناں۔ بلکہ تمام عاشقوں شاعروں صورت گروں اور افسانہ نویسوں کا اس پر اتفاق ہے کہ دل صرف ناداں اور نالاں ہی نہیں پکا پکا اسٹوپڈ، کمینہ، بدمعاش اور لوزر بھی ہے۔ لیکن اب وہ حال ہے اور نہ ہمارا خیال ہے کہ بزرگوں نے یہ جو اپنی خطاؤں کے بارے میں نوکمنٹس کی دفعہ لگا رکھی ہے بالکل صحیح لگارکھی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ بہت گہرائی میں اتر کر زرو جواہر نکالتے تھے جن کی قیمت و اہمیت کنارے کنارے سیپیوں سے کھیلنے والے جانتے نہیں تھے
کشتگان غرور کی باتیں
صاحبان غرور کیا جانیں
اور غفورے پہ جو گزرتی ہے سیٹھ عبدالغفور کیا جانیں۔ ایک ایک قول زریں کے لیے اور ایک ایک فیصلے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے "غور" کے کتنے حوضوں میں کتنی ڈبکیاں لگانا پڑتی ہیں تب کہیں جا کر "چمن" میں فیصلے اور قول زریں کا دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک احمق اپنی حماقت کا اظہار کرتے بولا۔ بوتلوں میں شراب ہونے یا نہ ہونے کی آگاہی میں نو سال کا عرصہ لگ سکتا ہے توکسی آدمی کے احمق ہونے یا نہ ہونے کی آگاہی میں کم ازکم ساٹھ سال کا عرصہ لگنا چاہیے اور اس کی مثال بھی تاریخ میں موجود ہے۔ سقراط نے ساٹھ سال کے بعد معلوم کیا تھا کہ اس کی بوتل میں شراب کی ایک بوند بھی نہیں اور خاقانی صاحب کو تو آپ جانتے اسے "بادنجان" کو بادنجان سمجھنے میں تیس سال کا عرصہ صرف کرنا پڑا تھا پھر اس نے اپنا فیصلہ یوں سنایا تھا کہ:
پس از سی سال ایں نکتہ محقق شدبہ خاقانی
کہ بورانی ست بادنجان و باد نجان بورانی
یعنی خاقانی کو پورے تیس سال میں یہ پتہ چلا کہ بورانی بینگن ہوتے ہیں اور بینگن بورانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب اگر بینگن جیسی عام چیز کو پہچاننے میں تیس سال لگ سکتے ہیں تو شراب تو پھر بھی ایک وسیع وعریض مضمون ہے۔ سیکڑوں اقسام کی شرابیں ہیں جن میں اکثر کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں کوئی اسے شراب سمجھتا ہے کوئی ٹانک سمجھتا ہے کوئی زہر سمجھتا ہے کوئی "دارو"۔ اور اس کا فیصلہ ھما شما تو کر بھی نہیں سکتے، خاص خاص ماہرین ہی دیکھ کر، سونگھ کر اور چکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ شراب ہے یا نہیں۔ اور پھر برانڈ یا مغربی ناموں کے لیے اپنے ہاں بھی یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے کوئی مے کہتا ہے کوئی بادہ کوئی شراب کوئی اور کچھ۔ اور پردہ پوش بھی تو ہے
جمال دختر از نورچشم امست مگر
کہ درنقاب زجاجی وپردہ غیبی ست
دوائے درد خو اکنوں از آں مشرف جوُ
کہ در صراحی چینی و ساغر حلبی ست
مطلب یہ کہ کوئی معمولی کام تو ہے نہیں کہ دیکھ لیا اور کر لیا اور ادھر بڑے بڑے بزرگوں نے یہ بڑا سا دفعہ بھی بنایا ہوا ہے۔ کہ چاہے سو مجرم چھوٹ جائیں کسی ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی امدادی طور پر ایک اور دفعہ بھی ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہیے۔
اور اگر دیکھا جائے تو یہ دو دفعات یا بزرگوں کے اقوال زرین ہی بہت سارے لوگوں کی روزی روٹی کا وسیلہ ہیں بلکہ "سیاہ و سفید" کا ذریعہ ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم بزرگوں کی اس بات سے قطعی مطمئن ہیں کہ ان کی خطاؤں کو پکڑنا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کی خطاؤں کے پیچھے "نہایت رسا رسا" دانائیاں ہوتی ہیں۔ نادان تو صرف بوتل دیکھ کرسمجھ لیتے ہیں کہ ان میں یہ یہ ہے یا وہ وہ۔ لیکن دانا بزرگ پوری طرح تحقیق کے بعد فیصلہ کرتے ہیں اور سچائی تک پہنچنے میں "عرصہ" تو لگ ہی جاتا ہے چاہے نو سال ہوں یا سو سال ہوں۔ مطلب یہ کہ یہ جو ھما شما بلا سوچے سمجھے منہ اٹھا کربزرگوں کی خطائیں پکڑتے رہتے ہیں بالکل ہی "خطا" کرتے ہیں ہم نے تواپنی ناسمجھی بلکہ نارسائی تسلیم کر کے توبہ کر لی ہے کہ بزرگوں کی خطائیں پکڑنے کی خطا بالکل نہیں کریں گے۔ آپ بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیجیے کہ بزرگ ہی "رسا" ہیں اور ہم سب خطا بلکہ خطائی ہیں۔