سینٹ انتخاب: وزیر اعظم پر بھرپوراعتماد کا مظہر
سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے حالیہ انتخابات میں حکومتی امیدواروں کی کامیابی دراصل وزیر اعظم عمران خان پر بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔ حکومتی امیدوار سینیٹر صادق سنجرانی اور مرزا محمد آفریدی نے بالترتیب چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی نشستوں پر واضح برتری حاصل کی۔ نو منتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان سے ہے جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سابقہ فاٹا اور موجودہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچ قبیلے سنجرانی سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی 14 اپریل 1978ء کو بلوچستان کے قیمتی معدنیات سے مالامال ضلع چاغی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم آبائی علاقے نوکنڈی سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
نومنتخب ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کا نام پہلی مرتبہ اعلیٰ سطح پر سیاسی میدان میں ابھر کر سامنے آیا جب وہ 2018ء میں آزاد حیثیت سے سابق فاٹا سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ مرزا محمد آفریدی کا پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع خیبر کے آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ سپاہ سے تعلق ہے۔ مرزا محمد آفریدی صنعتکار اور کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کے انتخاب سے سابقہ فاٹا اور موجودہ کے پی کے کو بھی پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی حاصل ہوگئی ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے وطن عزیز کی کلیدی نشستوں پر تعیناتی کے حوالے سے یہ اصول کارفرما رہا ہے کہ ملک کے ہر حصے سے مؤثر اور مساوی نمائندگی ہو۔ اس وقت صدر مملکت کا تعلق سندھ سے ہے۔ وزیر اعظم پنجاب سے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے پی کے سے اور چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے ہیں۔ یوں وفاق میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے۔
پارلیمنٹ میں تمام صوبوں کی مؤثر اور مساوی نمائندگی ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبے کی سطح پر اور قومی اسمبلی میں وفاقی سطح پر براہ راست عوامی نمائندگان منتخب ہو کر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا میں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کی نمائندگی ہو۔ لہذا صوبائی اسمبلیاں سینٹ میں جو ارکان بھیجتی ہیں وہ مذکورہ صوبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ا سی طرح قومی اسمبلی سے منتخب ہونے والے سینیٹرز اسلام آباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے ارکان منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اسی طرح سینٹ میں بھی تمام صوبائی اسمبلیوں سے سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں جو متعلقہ صوبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد سے بھی سینٹ کے رکن منتخب ہوتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی منتخب ہوئے۔ اب مسئلہ چیئرمین سینٹ کا تھا کہ اس کے انتخاب میں بھی صوبائی نمائندگی کا اصول کارفرما رکھا جائے۔ اسی لئے حکومت نے صادق سنجرانی کو ہی دوبارہ بطور سینٹ چیئرمین نامزد کیا کہ وہ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن اتحاد نے صرف عمران خان کی مخالفت میں سید یوسف رضا گیلانی کو نامزد کیا جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوجاتے تو پنجاب کو وزیر اعظم اور چیئرمین سینٹ دو نمائندگیاں مل جاتیں اور بلوچستان رہ جاتا۔ نہ جانے اپوزیشن اتحاد نے اس جانب کوئی توجہ کیوں نہ دی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سب مل کر بلوچستان کو نمائندگی دیتے اور صادق سنجرانی کو سب مل کر منتخب کر لیتے۔
بلوچستان کی نمائندگی اس لئے بھی ضروری ہے کہ بھارت بلوچستان پر اپنی گندی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار بھارت ہے اس کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں جو ہم نے دنیا کو دکھادیئے۔ کلبھوشن یادیو بھی بھارتی ایجنٹ ہی تھا جو بلوچستان میں دہشت گردی کیلئے آیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت چند بلوچ سرداروں کو خرید کر ان کے ذریعے یہاں امن و امان کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ دنیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ بلوچ عوام کو ان کے حقوق نہیں دیئے جارہے۔ اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے بلوچ عوام کو مفلسی اور محرومی میں دھکیل کر رائے عامہ کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کی ترقی میں معاون سی پیک بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی را میں ایک سپیشل سیل بنایا گیا ہے۔ اس کے لئے علیحدہ سے فنڈز جاریکئے جارہے ہیں جو یہاں کے سرداروں کو دیئے جارہے ہیں۔ گوادر بندرگاہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گوادر کے پانیوں میں بھارتی نیوی کی آبدوز بھی پکڑی گئی جو اسی مقصد کیلئے یہاں چھپ کر آئی تھی۔ ان تمام پہلوؤںپر نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ وفاق میں بلوچستان کا بھرپور حصہ ہو۔ بلکہ چاہیے تویہ تھا کہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو بطور ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کر لیا جاتا۔ ان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے یوں بلوچستان سے نمائندگی مضبوط ہو جاتی۔ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ صادق سنجرانی بطور سینٹ چیئرمین کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اب تک ایوان کو بڑے نیوٹرل انداز میں چلایا ہے اور کسی کو بھی ان سے کوئی شکایت نہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کرتے ہوئے سینٹ الیکشن میں ان کے پینل کو بھرپور انداز میں کامیاب کرایا۔ یہ عوام اور عوامی نمائندگان کے موجودہ حکومت پر بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر بلوچستان کی نمائندگی کا مسئلہ نہ بھی ہوتا تو کیا یوسف رضا گیلانی اس نشست کے اہل تھے۔ سابق وزیر اعظم سپریم کورٹ کے سزا یافتہ ہیں اور حال ہی میں ان کے بیٹے کی جو ویڈیومنظر عام پر آئی اس میں وہ ووٹوں کی خرید و فروخت اور ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ سینٹ کا انتخاب تو یوسف رضا گیلانی نے جیسے تیسے جیت لیا مگر لگتا ہے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ان کے بیٹے کے فارمولے پر ان ہی کے اراکین نے عمل درآمد کر دیا۔