پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں
2019ء میں امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدے کے امکانات واضح ہوئے تو مودی نے ایک گریٹ ڈبل گیم شروع کی۔ بلوچ اینڈ پشتون کارڈ بھارت کی گریٹ گیم کا اہم حصہ ہے۔ گریٹ گیم کے سلسلے میں اجیت دوول افغانستان میں حکمرانوں سے مل چکا ہے۔ دوول کھلے عام بلوچستان کی بات کرتا ہے۔ عالمی سطح پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت دہشت گردی کی سرپرستی کے ذریعے خطے اور عالمی امن کے لئے خطرہ بن چکا۔ گریٹ ڈبل گیم کے تحت پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس نئے سلسلہ میں بھارت نے جموں و کشمیر میں دہشت گرد گروپوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ بھارت میں ابھرنے والی مختلف تحریکوں کے خلاف بھی ہندوستان کی داعش کی پشت پناہی کا انکشاف ہوا جس کے بارے میں اقوام متحدہ پہلے ہی کیرالہٰ اور کرناٹک میں دہشت گرد گروپوں کی نشاندہی کر چکا ہے۔ ہندوستان ان دہشت گرد گروپس کو پاکستان اور خطے میں عدم استحکام کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانے اور افغان امن عمل سبوتاژ کرنے کے مشن پر بھی عمل پیرا ہے۔ بھارت کی خطے میں ڈبل گیم تو بڑے عرصے سے جاری تھی لیکن ایک گریٹ ڈبل گیم 2019ء میں شروع ہوئی۔ ابتدائی نتائج 2020ء میں آنے کا ہدف رکھا گیا مگر کورونا کی وجہ سے تعطل آیا۔ 2021 آغاز کے ساتھ ہی نریندر مودی نے گریٹ ڈبل گیم پر دوبارہ عمل شروع کر دیا۔ دوحا میں امن کو ثبوتاژ کرنے کی کوششوں کیلئے ہندوستان اور داعش کا گٹھ جوڑ سامنے آیا۔ ماضی میں ہندوستان کے داعش سے گٹھ جوڑ رہے ہیں۔ ہندوستان نے کابل میں سِکھوں کے گوردوارے پر حملہ کرایا جس کا ماسڑ مائنڈبھارتیشہری نکلا۔ بھارت پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات کرانا چاہتا ہے۔ کراچی اور حالیہ مچھ واقعہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مودی ایک طرف بلوچستان میں فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے تو دوسری طرف پاکستان کے پختونوں میں بے چینی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اِس مقصد کیلئے وہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے۔
کنگزکالج لندن کے استاد اوی ناش پلوال کی کتاب مائی اینیمیزاینیمی نے بھارت کی گریٹ گیم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں عدم استحکام پیداکرناچاہتا ہے۔ اوی ناش کی کتاب میں بلوچ اینڈ پشتون کارڈ، کا پورا باب لکھا گیا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق مودی سرکارافغان امن عمل کی کامیابی سے خوف زدہ ہے۔ افغان امن مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو مودی نے آرٹیکل 370 کو معطل کر دیا۔
پاکستان کا روز اول سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ خطے کے امن کو بھارت سے خطرہ ہے۔ گزشتہ تین چار ماہ سے بھارتی امن دشمن اقدامات کھل کر دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ بھارت کے داعش سے ایشیا سمیت دنیا بھر کے ممالک میں روابط اور حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ امریکی ادارے فارن پالیسی نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ داعش کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے شدت پسندوں میں سے اکثریت کا تعلق بھارت اور وسطی ایشیا سے ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کے بیانات بھی کتاب میں مرتب کیے گئے ہیں جبکہ مصنف نے سابق افغان صدر حامد کرزئی سے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت دوول کی ملاقات کے بارے میں بھی ذکر کیا ہے۔
اس سے قبل، برسلز میں قائم ڈس انفارمیشن واچ ڈاگ، یورپی یونین کے ڈس انفلو لیب نے ایک ایسے فورم کو بے نقاب کیا تھا جو یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہونے کے لئے بھارت کے سفارتی مفادات کو فروغ دیتا ہے جس پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ڈس انفارمیشن واچ ڈاگ کی چونکانے والی رپورٹ کے بعد، جعلی فورم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم کے ممبران کے بورڈ نے بڑھتے ہوئے دباؤ اور استعفیٰ دینے کے مطالبے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ ڈس انفلو لیب کے مطابق، سریواستو گروپ کے ذریعہ، جنوبی ایشیا ڈیموکریٹک فورم کو سنجیدگی سے 2011ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ ان خبروں کا انتظام بھارتی اسٹیک ہولڈرز نے کیا تھا، جس میں تھنک ٹینکس، این جی اوز اور سری واستو گروپ کی کمپنیوں کے ایک بڑے نیٹ ورک سے تعلقات تھے۔ نومبر، 2020ء میں غیر سرکاری گروپ نے، اپنی ابتدائی تحقیقات میں 65 ممالک میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہونے کے لئے 265 جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کا انکشاف کیا تھا۔
اسلامی جمہوریہ افغانستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تعلقات روایتی طور پر مضبوط اور دوستانہ ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں سویت اتحاد کی پشت پناہی سے بننے والے جمہوریہ افغانستان کو جنوبی ایشیا میں صرف بھارت نے تسلیم کیا، البتہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی اور طالبان حکومت کے دور میں تعلقات گھٹ گئے۔ بھارت نے افغانستان میں طالبان کی بے دخلی میں مدد کی اور افغانستان کے لیے انسان دوست اور تعمیراتی امداد کا سب سے بڑا علاقائی فراہم کنندہ بن چکا ہے۔ افغانستان کی تعمیر نو کی کوششوں کے طور پر بھارتی مختلف تعمیراتی منصوبوں میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را پر الزام لگایا ہے کہ وہ پاکستان کو بدنام کرنے اور عسکریت پسندوں کی تربیت اور معاونت کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس دعوے کو بھارت اور امریکا کی طرف سے سختی سے مسترد کر دیا گیا۔ ماضی میں پاکستان افغانستان کا اہم اتحادی رہا ہے۔ 2007ء میں حامد کرزئی کے ایک قریبی رشتے دار نے بیان دیا کہ بھارت افغانستان کا محبوب ترین ملک ہے۔ بھارت میں افغانستان کے سفیر شاہدہ محمد ابدالی نے اپریل 2017ء میں بیان دیا کہ بھارت علاقاائی سطح پر افغانستان کا سب بڑا امداد دینے والا ملک ہے جب کہ 3 بلین ڈالر کی اس امداد کے ساتھ بھارت عالمی سطح پر پانچواں بڑا ہے جو افغانستان کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں 200 سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کی تعمیر کی ہے اور 1000 ہزار طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں 16، 000 ہزار افغان طلبہ و طالبات کو بھارتی کالجوں و جامعات میں داخلہ دیا ہے۔