جدید ترین چینی طیارے بھارتی سرحد پر
بھارت کی جانب سے فرانس سے 5 رافیل جنگی طیارے حاصل کیے جانے کے بعد خوب بھڑکیں ماری جا رہی تھیں کہ اب چین اور پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ صرف چند طیاروں کے حصول نے بھارت کی مودی سرکار کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ حکومت اور آرمی چیف کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی پاکستان اور چین کو دھمکیاں دے رہا تھا یعنی رافیل طیاروں کی کھیپ موصول ہونے کے بعدپورا بھارت ہی حواس باختہ اور غیر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
لیکن اب بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے اپنے سب سے جدید جنگی طیارے بھارت کی سرحد پر پہنچا دیے۔ بذریعہ سیٹلائٹ تصاویر چینی فضائیہ میں شامل چوتھی جنریشن کے جے 20 اسٹیلتھ لڑاکے طیاروں کی بھارتی سرحد کے قریب موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ گویا اب اس تمام صورتحال میں چین کے ایک خاموش اقدام نے بھڑکیں مارنے والے بھارتی میڈیا اور مودی سرکار کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
لداخ سے شروع ہونے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی ختم نہ ہو سکی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چین اور بھارت کے مابین بھی لداخ کے حوالہ سے کشیدگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ چین نے بھارتی کرنل سمیت 20 فوجیوں کو مار دیا تھا۔ بھارت چین کے معاملے پر خاموش رہا۔ کبھی دھمکیاں بھی دیتا رہا لیکن چین بھی بھارت کو منہ توڑ جواب دیتا رہا۔ چین نے گھس کر بھارتی زمین پر لداخ میں قبضہ کیا جس کو تاحال بھارت چھڑا نہیں سکا۔ چین نے لداخ کے قریب اپنے ایئر بیس کو مزید پھیلانا شروع کر دیا۔ سکم اور لداخ کی سرحد پر چینی فوج کی نقل وحرکت سے بھارتی فوج اورمودی سرکار کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ چینی افواج ڈربوک شیوک کی اہم شاہراہ سے صرف 255 کلومیٹر دور ہیں۔ سرحد پر چینی افواج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پچھلے کچھ ہفتوں میں چین نے بھارت کے متنازعہ شمالی سرحد پر اپنے لڑاکا طیارے دگنا کردیئے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے چائنا ایرو اسپیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ (سی اے ایس آئی) نے اس کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر تک، چین کے سنکیانگ علاقے کے شمال میں، ہوتن ہوائی اڈے پر 36 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔ اس میں 24 روسی ساختہ J-11 یا J-16 جنگی طیارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، اب چھ بڑے J-8 جنگی طیارے، دو Y-8G ٹرانسپورٹ، دو KJ-500 طیارے، دو M-17 ہیلی کاپٹر، علاوہ ازیں متعدد CH-4 ڈرون بھی موجود ہیں۔ امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رات میں کم از کم کچھ پروازیں ہو تی ہیں۔ یہ طیارے صرف دکھانے کے لئے کھڑے نہیں کیے جاتے تاہم لگتا ہے کہ لداخ میں چینی فضائیہ دفاعی طور پر بھارتی طیاروں سے چینی زمینی فوج کی حفاظت کے لئے فضائی برتری حاصل کرچکی ہے اور ہندوستانی بحری پروازوں کو روکنے پر مرکوز ہے۔ اگرچہ چینی جنگجو بھارتی فضائیہ کو دبانے کے لئے بھارتی ہوائی اڈوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔
لداخ کے محاذ پر چین بھارت تصادم کے بعددونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکرات ناکام ہو گئے۔ دونوں ملکوں میں گزشتہ دو ماہ سے جاری فوجی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں فوجی کمانڈروں کی ملاقات اور اس کے بعد بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈیول اور چین کے وزیر خارجہ وانگ فی کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد کچھ پیش رفت ہوئی تھی۔ بھارت کے سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ چین نے فوجی اور سفارتی سطح کے مذاکرات کے بعد گلوان، ہاٹ سپرنگ اور گوگرا میں اپنے فوجی پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا تھا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ گو کہ فنگر ایریا اور ڈپسانگ کے علاقوں میں صورت حال غیر واضح ہے لیکن بھارتی فوج نے گلوان وادی، ہاٹ سپرنگ اور گوگرا سے چینی فوجیوں کے پیچھے ہٹنے کی تصدیق کی ہے۔ مگر اب چین نے لداخ میں اور گلوان وادی سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔
دونوں ملکوں کی فوجوں کے پیچھے ہٹنے سے فوجیوں کے درمیان کے ایک 'بفر زون' یا ایک محفوظ فاصلہ تو وجود میں آیا جس سے کسی اچانک مسلح تصادم کا خدشہ دور ہو جائے گا۔ لیکن یہ بفر زون بھارت کے ہی علاقے میں قائم ہوا یعنی بھارتی فوج اپنے ہی علاقے میں پیچھے ہٹ گئی۔ لداخ میں فنگر ایریا پربھارت فنگر چار سے فنگر آٹھ تک کے علاقے پر دعوی کرتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ چین فنگر آٹھ تک اپنی فوجیوں کو پیچھے ہٹائے جبکہ چین فوج فنگر چار تک خیمہ زن ہو چکی ہے اور اس نے کچھ مستقل تعمیرات بھی کر لی ہیں۔
بھارت کیلئے لداخ اس لئے بھی اہم علاقہ ہے کہ لائن آف ایکچوئل لداخ ریجن بھارت کیلئے پاکستانی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا مختصر ترین اور واحد راستہ تھا جس پر اب خوفناک ڈریگن آبیٹھا ھے اور بزدل بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ بھارت کے سابقہ آرمی چیف جنرل (ر) وی پی ملک کا کہنا ہے کہ میرے ذاتی رائے میں چین اور ہندوستان کے مابین سرحدی کشیدگی کو فوجی سطح پر حل کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور سرحدی کشیدگی طویل عرصہ چل سکتی ہے۔ لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں۔