5فروری:یومِ یکجہتی
5 فروری کو پورے پاکستان میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کیلئے یوم یکجہتی کشمیر پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر سمیت سارے ملک کے عوام تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں۔ جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا جا رہاہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں پر زور دیا جائے گا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے اقوام عالم اور انسان دوست ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر کی ابتر سیاسی صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لے کر بھارت کی سرکاری دہشت گردی روکنے میں کر دار ادا کریں اور تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے کشمیری عوام کی رائے اور امنگوں کا لحاظ رکھیں۔ حریت کانفرنس کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارتی سرکار اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کے گمراہ کن پرا پیگنڈے سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگی ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس اور تشویشناک ہے۔ بھارت نے 9لاکھ فوجی اہلکاروں کی بندوقوں کے زیر سایہ کشمیر کے متنازعہ خطے میں کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی ہے۔ حراستی ہلاکتوں، خواتین پر دست اندازیاں، عزتوں پر حملے اور املاک کی تباہی روز کا معمول بنادیا گیا ہے۔ کٹھ پتلی حکومتیں جعلی الیکشنوں کا ڈرامہ رچا کر قائم کی جاتی ہیں جو جمہوریت کا دعوی تو کرتی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر کٹھ پتلی حکومت کے رکاوٹ نہ ڈالنے کا یقین تو دلاتی ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لئے بھی کشمیری حریت پسند عوام کو اظہار رائے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
بھارتی حکمرانوں کی ستم ظریفی ملاحظہ کی جائے کہ وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پہلے بھارتی وزیر اعظم کے وعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آزادکشمیر اور شمالی علاقوں پر اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ حالانکہ کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کے ذریعے بھارت کی فوجوں کے خلاف جنگ کر کے ان علاقوں کو آزاد کرایا تھا۔ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے پر کمر بستہ ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔
ہندوستانی حکومت عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران پاکستان پرکشمیر میں دہشت گردی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔ ہندوستانی حکمرانو ں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی قوم آزادی کے حصول پر تل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کو آزادی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ کشمیری گذشتہ 70 سال سے آزادی کی تلاش میں سرکردہ ہیں اور وہ اس مقصد کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں بڑے تو بڑے جوان، عورتیں، بچے سبھی شامل ہیں۔ ہندوستان اپنی لاکھوں فوج استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو روک نہیں سکا اور وہ زیادہ دیر تک طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا۔ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستانی حکمران ریاستی دہشت گردی کی بجائے کھلے دل سے کشمیریوں کا استصواب رائے کا حق تسلیم کریں۔ جو قوموں کی آزادی کے لئے آج بھی ایک مسلمہ اصول ہے۔
کشمیر ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف کشمیریوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے بلکہ پاکستان کے لیے بھی یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اکیس جنوری 1990ء میں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف سرینگر اور دیگر شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئے تو بھارت کی درندہ صفت فوج نے نہتے کشمیریوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر درجنوں شہریوں کو شہید کر دیاکشمیر کی تاریخ میں ایک ایسا موقع تھاجب اتنی بڑی تعداد میں کشمیریوں نے منظم ہوکر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ اور فوجی تسلط کے خلاف اعلان کر دیا۔
یہ درست ہے کہ یوم یک جہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے اتنا ہی کردینے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت پہنچ سکتی اور آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟ ۔ آخر ہم کب تک صرف یوم یک جہتی ہی مناتے رہیں گے؟ کیا اب ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعد مزید ایک قدم آگے نہیں بڑھانا چاہئے؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے اس کو بھارت کے پنجہ استبداد سے طاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کی تھی کشمیر کی آزادی کے حوالے سے قائد اعظم کی کمٹمنٹ تھی اس وقت ابھی پاک فوج پوری طرح منظم نہیں ہوئی تھی اور اسلحہ کی کمی بھی درپیش تھی۔ افسوس کہ کشمیر کے حوالے سے قائد کے بعد آنے والے کسی حکمران نے بانی پاکستان جیسے عزم و ارادے کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اب تو پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور وہ ایٹمی کا حامل بھی ہے۔
جب مجاہدین فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے ہوئے سری نگر تک پہنچا چاہتے تھے کہ بھارت مقبوضہ وادی کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھاگا بھاگا یو این چلا گیا جس نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کو حق ِ استصواب کی صورت میں تجویز کیا۔ اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن آج اتنے سال ہونے کو ہیں بھارت نہ صرف کشمیریوں کو یہ حق دینے سے انکاری ہے بلکہ اس نے پچاس کی دہائی میں ہی آئین میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کواپنے صوبے کی حیثیت دے دی۔