سنو گجر کیا گائے
ایک کتاب اور اس کے مصنف کا سحر کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ مجھے کچھ عرصہ پہلے ہوا تھا جب میں گاڑی ڈرائیور کرتے بیگم صاحبہ اور ساس محترمہ ساتھ عید کی چھٹیوں پر سفر کررہا تھا۔
یہ کتاب میں نے مہربان مظہر سلیم مجوکہ صاحب کی فیس بک وال پر دیکھی تھی۔ انہوں نے کہیں سے پرانا ایڈیشن اپنے لیے منگوایا اور اس کی تصویر فیس بک پر لگا دی جو انہیں مہنگی پڑی۔
میں دو تین چیزوں میں تکلف کا قائل نہیں۔ ایک کسی دوست یا جاننے والے کے گھر دال اچھی پکی ہو تو بھی خود کھانے بعد پیک بھی کرالیتا ہوں۔ ہوٹل پر بھی جائوں تو پہلی فرمائش دال کی ہوتی ہے۔
میری بیگم اس پر مجھے خوب سناتی بھی ہے کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیا سوچیں گے۔ کیسے نادیدہ ہیں آپ۔ میں خود اچھی بناتی ہوں۔
اب تو مجاہد بھی اچھی دال پکا لیتا ہے۔
اپ ریسٹورنٹس پر بھی دال کا آڈر کرتے ہیں۔ اگر باہر جا کر بھی دال کھانی ہوتی ہے تو ریسٹورنٹ پر جانے کا فائدہ؟
میں جواب دیتا ہوں اچھی بری دال کا سوال نہیں ہے۔ ہر ہاتھ کا ذائقہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ان ہاتھوں سے بنائے سالن یا دالن کا ذائقہ بھی برابر نہیں ہوتا لہذا اسے اپنی انسلٹ نہ سمجھیں۔ میری لاہور کی سالی محترمہ کے ہاتھوں سے پکائے کھانوں کا ذائقہ زیادہ اچھا لگتا ہے جبکہ ساس محترمہ کا تو جواب نہیں کہ بندہ انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔
باقی جہاں تک بات ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے میرے بارے، تو سوچنے دیں ان کا کام ہے کہ یار یہ کیسا بندہ ہے۔ اتنا اچھا کھانا کھلایا، اتنی زبردست ڈشیں بنائیں اور اسے صرف دال پسند آئی اور وہ بھی ساتھ پیک کرالی۔ میں نے کہا میرا کام تو گھر جا کر اس دال کو کل صبح کھانا ہے۔ باقی وہ جو سوچتا رہے۔ اب دال پر کمپرومائز نہیں ہے۔
اس طرح اچھی کتاب نظر آجائے تو بھی بلاجھجک مانگ لیتا ہوں چاہے اگلا واقف ہے یا نہیں۔ ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھتا ہوں کہ کوئی مجھ سے کتاب مانگ لے تو میں اسے کبھی نہ دوں۔
دال اور کتاب مانگنے میں، میں نے ہمیشہ اپنے سرائیکی محاورے پر عمل کیا ہے۔ "پنڑے دے سبھے گھر۔۔ مانگنے والے کا ہر گھر اپنا ہوتا ہے)
اللہ بھلا کرے مجوکہ صاحب کا۔ بھلے مانس بندے نکلے۔ میں نے لکھا "ٹھاکر یہ کتاب مجھے دے دیں"۔
انہوں نے اگلے دن ٹی سی ایس کرا دی۔
اس طرح ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے بھی جب کسی اچھی کتاب کا تعارف اپنی فیس بک پر کرایا تو بھی ان سے بھی بلاجھجک مانگ لیتا ہوں اور یوں کئی شاندار اردو میں لکھی کتابیں ان کے توسط سے پڑھی ہیں جو وہ پوسٹ کرا دیتے ہیں خصوصا ملکہ پکھراج کی خودنوشت جس کا نشہ ابھی تک اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس لیے شاید آج کل میرے ڈر سے ڈاکٹر انوار صاحب اپنی فیس بک وال پر کتابیں کم ہی پوسٹ کرتے ہیں۔
خیر اب میں سفر پر جارہا تھا تو جہاں دو تین اور کتابیں ساتھ گاڑی میں رکھ لیں وہیں سرور سکھیرا صاحب کی یہ کتاب بھی رکھ لی کہ عید کی چھٹیوں پر پڑھوں گا۔
میری ساس محترمہ جو ستر پچھتر برس کے قریب ہیں وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ انہوں نے وہاں بیک سیٹ پر رکھی ان کتابوں میں سے یہ کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنے لگیں۔ کافی دیر پڑھتے پڑھتے اچانک رک کر بیٹی کو مخاطب کرکے کہا دیکھو کتنی شاندار کتاب لکھی ہے۔ کتنی پیاری نثر ہے۔
انہوں نے مجھے مخاطب نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں ڈرائیورنگ کررہا تھا کہیں توجہ نہ ہٹ جائے۔
وہ کچھ دیر تعریف کرکے دوبارہ کتاب میں کھو گئیں۔
سرور سکھیرا صاحب کی نثر کا زمانہ دیوانہ رہا ہے۔ لاہور سے "دھنک" رسالے کی کبھی اتنی دھوم تھی جنتی کبھی سب رنگ کی تھی۔ جنہوں نے سرور سکھیرا صاحب کے جنگ میں کالم پڑھے یا ان کی نثر پڑھ رکھی ہے وہ ابھی تک دیوانوں کی طرح ان کی تحریریں تلاش کرتے ہیں۔ حسن نثار نے اپنے کالموں میں ان پر بہت کچھ لکھا۔
مجھے اس دن اسلام آباد سے وہاڑی کی لانگ ڈرائیو کے دوران پہلی دفعہ احساس ہوا کہ ادیب کے قلم اور نثر میں طاقت ہو تو بیس سال بعد بھی آپ کی لکھی ہوئی تحریریں پچھتر سالہ خاتون کو بھی دوران سفر کتاب رکھ کر تعریف پر مجبور کر دیتی ہیں۔