پرانی محفلیں یاد آرہی ہیں
برسوں پہلے کسی دوست نے اس کتاب کا ذکر کیا تھا۔ اب جا کر ملی ہے اور ملنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ عبداللہ ملک صاحب کے کالم میں نے نوے کی دہائی کے شاید ابتدائی برسوں میں پڑھنے شروع کیے تھے جب فرینٹر پوسٹ ملتان میں مظہر عارف صاحب ساتھ اپرنٹس کے طور پر کام کررہا تھا۔ وہ روزنامہ پاکستان میں لکھتے تھے اور میں ان کے کالموں کا انتظار کرتا تھا۔ ایک پڑھے لکھے نظریاتی انسان کی تحریروں میں اپنا ایک جادو ہوتا ہے۔ ان کے کالموں سے بہت کچھ سیکھا۔
خیر تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ آپ بیتی نہ ملی۔ اب چند دن پہلے ایک آن لائن کتابیں بیچنے والے مہربان نے خود مجھے ان باکس کی کہ آپ کو چاہیے؟ اندھا کیا چاہے ایک آنکھ (ایک آنکھ چل پڑے تو بندہ اندھا نہیں رہتا)۔ خیر ان کی مہربانی بھیج دی۔
انار کلی بازار لاہور کے میرے کتاب دوست حافظ ارسلان یاد آئے کہ کتاب ہجرت کرتی ہے اور اپنا قاری خود چنتی ہے۔ شاید میری باری دیر سے لگنی تھی۔ اس لیے اس اہم کتاب کو مجھے چننے میں برسوں لگ گئے۔
اب پڑھنا شروع کی تو بہت ہی خوبصورت کتاب۔ جیسی سنی تھی اس سے بڑھ کر پائی۔
عبداللہ ملک لکھتے ہیں"وہ ابھی نوجوان تھے کہ ایک دن فیض صاحب سے ملنے گئے۔ سرما کا موسم تھا۔ فیض صاحب کے ہاں پہنچا تو معلوم ہوا گھر پر ہیں۔ سیدھا ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔ وہاں ایک خوبصورت گوری چٹی خاتون ساڑھی پہنے، کشمیری شال اوڑھے نیم دراز آگ تاپ رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کشمیری شال کے بجائے ساڑھی کے پلو سے اپنے بدن کے اس حصے کو ڈھاپنا چاہا جس کا ننگا ہونا اس لباس میں معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ میں گم سم کھڑا تھاکیونکہ میں نے پہلی دفعہ کسی عورت کا اتنا پیٹ ننگا دیکھا تھا۔
میں آداب بھی نہ بجا لایا۔
فیض صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور رشید جہاں سے کہا یہ لڑکا عبداللہ ملک ہے۔ "سرمایہ داری" اور "جاگیر داری" پر اس کی کتب چھپ چکی ہیں۔
یہ سن کر رشید جہاں نے خوشی کا اظہار کیا اور پوچھا پڑھتے ہو؟
ہاں میں نے زبان کم سر کو زیادہ ہلایا۔
وہ ڈاکٹر تھیں اس لیے میری بوکھلاہٹ کو جلد سمجھ گئیں۔ مجھ سے باتیں کرنے کی بجائے فیض صاحب سے باتیں کرنے لگیں۔ جب تک میں وہاں بیٹھا رہا ان کے کشمیری حسن اور میٹھی میٹھی باتوں کے سحر میں ڈوبا رہا۔ آتی دفعہ اتنا کہہ سکا آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔
یہ سن کر رشید جہاں بولیں مجھے معلوم ہے تمہیں کس بات پر خوشی ہوئی۔ یہ کہہ کر ہنس پڑیں۔ ان کی یہ ہنسی کا زوردار چھناکا میں نے اپنے کانوں میں بھر کر گھر کی راہ لی"۔
یہاں تک پہنچ کر مجھے عظیم فرانیسی ادیب بالزاک کی کسی کہانی میں پڑھا ہوا ایک فقرہ یاد آیا کہ عورت کسی کمرے میں داخل ہو تو وہ جو کچھ ایک لحمے میں اپنی آنکھ میں دیکھ اور سمجھ سکتی ہے، وہ دنیا بھر کے مرد اپنی آنکھیں دونوں ہاتھوں سے مل مل کے بلکہ گھور کر بھی دیکھتے رہیں تو بھی وہ کچھ نہیں دیکھ پاتے۔
عورت کی ایک نظر ہزار مردوں پر بھاری ہے۔