کتاب ہجرت کرتی ہے
بعض کتابیں، بعض جملے، بعض فقرے آپ کی عمر بھر کی سوچ کو بدل دیتے ہیں۔ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا۔ کچھ کتابیں اتنی طاقتور اور زرخیز تھیں کہ میرے خیالات کو انہوں نے لحموں میں تبدیل کیا اور میں نے وہ ذہنی تبدیلی فوری طور پر رونما ہوتے محسوس کی۔ حیران ہوا میرے جیسے ضدی انسان نے اپنا دماغ یا سوچ کیسے بدل لی؟
میرے نزدیک لاجک اور ریزن کی تعریف یہی رہی ہے کہ ایسی بات جو فورا آپ کو کلک کرے اور آپ کے برسوں کے بوسیدہ خیالات، رائے اور نظریے کو تہس نہس کرکے آپ کو ایک نیا انسان بنا دے وہی لاجک ہوتی ہے۔
جیسے میں نے کہا چند کتابوں نے میری سوچ اور مجھے بدلہ، ایسے ہی لاہور اولڈ بکس کے دوست حافظ ارسلان کے ایک فقرے نے ہی مجھے ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ سرما کی چکمتی دھوپ میں کسی ایک اتوار کے روز انارکلی لاہور میں ان کی کتابوں کے اسٹال پر سیڑھیوں پر ٹیک لگا کر بیٹھے کڑک دودھ پتی کا ایک گرم گھونٹ اپنے سرد ہونٹوں پر محسوس کرتے ہوئے ایک بات سنی تھی۔
ارسلان نے سرگوشی کی تھی "کتاب بھی ہجرت کرتی ہے۔ اپنا قاری خود ڈھونڈتی/چنتی ہے"۔
میں نے چونک کر ارسلان کو دیکھا اور وہیں سن ہو کر رہ گیا تھا۔
اب میں جب بھی کوئی پرانی کتاب خریدتا ہوں اور اس پر کسی کا نام اور اس پر لکھا سال پڑھتا ہوں تو وہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ یہ کتاب کہاں سے چلی، کہاں پہنچی اور اب کتنے برسوں بعد میرے ہاتھوں میں ہے اور پتہ نہیں پھر کب کون سے نئے ہاتھ اسے تھامیں گے جیسے اب میں تھام کر کھڑا ہوں۔ پتہ نہیں کتاب یہ کتنے موسم دیکھ کر خوبصورت، ملائم یا کھردے ہاتھوں سے گزر کر مجھ تک پہنچی ہے۔
ابھی فرنچ ناول نگار ڈوما کے اس خوبصورت کلاسک The Three Musketeers ناول کو ہی دیکھ لیں جو کبھی کسی بچے نے اپنی ماں کو محبت ساتھ 10 اپریل 1944 میں اس وقت پیش کیا تھا جب جنگ عظیم دوم اپنی پوری آب و تاب ساتھ یورپ کی ہر گلی محلے میں موت بانٹ رہی تھی۔ اس وقت بھی کسی کو ماں کی سالگرہ یاد تھی۔ وہی گبئریل گارشیا مارکیز کے شاہکار ناول"وبا کے دنوں میں محبت" کی سی بات۔
شاید آج 80 برس بعد نہ وہ اماں زندہ ہوگی نہ گفٹ دینے والا بیٹا یا بیٹی۔
جب کتاب کا مالک نہ رہے تو پھر کتاب ہجرت کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ جب تک گھر کے مالک رہیں وہ کتاب وفادار رہتی ہے۔ وہ اپنا گھر نہیں چھوڑتی۔ اپنی شلیف سے جڑی رہتی ہے۔ لیکن جب محبت کرنے والے ہاتھ جن کا لمس آپ کو مدہوش کردیتا تھا وہ ہی نہ رہے تو پھر اس اکیلے اداس تنہا گھر میں بھلا کون ٹکتا ہے۔ ہجرت کا موسم آن پہنچتا ہے۔ پرندوں کے گھونسلے چھوڑنے کا موسم، درختوں سے پتے جھڑنے کا لحمہ، نئے ٹھکانے کی تلاش، نیا مالک اور اس کے ہاتھوں کا لمس۔
اب کچھ عرصہ یہ کتاب میرے گھر مہمان رہے گی۔ اس کی ہجرت کا سفر رک جائے گا اور پھر ایک دن کوئی نیا گھر، کوئی نیا مالک اور اس کے نئے ہاتھوں کا لمس اور نہ ختم ہونے والی اداس ہجرت کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے یہ کتاب پھر اپنے نئے سفر پر نکل جائے گی۔