پاکستان کی خوشحالی اور بقا کیلئے (2)
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کو انگریز کے بنائے ہوئے چار صوبوں کو تقریباً آزاد وحدتوں کی صورت تشکیل دینے اور یوں پاکستان کی نظریاتی وحدت پر ضرب لگانے کا عمل اچانک سے نہیں ہو گیا۔ یہ گذشتہ نوے سالوں کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ روس میں 1917ء میں جب کیمونسٹ انقلاب آیا اور لینن نے پرولتاریہ کی آمریت قائم کر دی، تو 1919ء میں دُنیا بھر کی کیمونسٹ تحریکوں کی ایک تنظیم قائم کی گئی جس کا نام "کیمونسٹ انٹرنیشنل" تھا جسے "Comintern" کہا جاتا تھا۔ اس تنظیم کے تحت 1920ء میں آذربائیجان کے شہر باکو میں مشرقی ممالک میں کام کرنیوالی قوم پرست انقلابی (Revolutionary Nationalist) تنظیموں کی ایک کانفرنس بلائی گئی۔
اس کانفرنس میں انیس سو مندوبین نے شرکت کی، جو خطے کی 24 قوم پرست تحریکوں کے نمائندے تھے۔ کانفرنس میں یہ طے ہوا کہ سوویت روس، مشرقی دُنیا میں چلنے والی تمام قوم پرست تحریکوں کی مدد کرے گا تاکہ جب وہ آزاد اور خودمختار ہو جائیں تو اپنے علاقوں میں کیمونزم نافذ کر دیں۔ اس کانفرنس میں بادشاہت کے خاتمے (End of Empire) اور قومیتوں کی آزادی کا نعرہ بلند ہوا۔ متحدہ ہندوستان میں سے پاکستان کے علاقوں سے پشتون، بنگالی، سندھی، پنچابی اور بلوچ وفود بھی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ قومیتوں کی آزادی کا یہ پیغام پہلے ہندوستان میں قائم ہونے والی کیمونسٹ پارٹی نے پھیلایا اور پھر 1935ء میں اس پرچم کو انجمن ترقی پسند مصنّفین نے ادبی سطح پر اُٹھایا۔
پاکستان کا بننا مغرب کے سیکولر، لبرل نظریات اور کیمونزم کے قوم پرستانہ خیالات، دونوں کی نفی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے ہی یہ دونوں طبقات پاکستان کے اساسی نظریے اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے در پے رہے۔ ان قوم پرستوں کو جو لیڈر شپ میسر آئی وہ سب کے سب وڈیرے، جاگیردار، نواب اور سردار تھے، جنہیں انگریز ویسے ہی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد میں طاقتور اور سیاسی رہنما بنا چکا تھا۔ اسی لئے وہ اپنے صوبوں کی سلطنت کے محافظ تھے اور اس میں ایک انچ کمی نہیں چاہتے تھے۔
شروع دن سے انہیں پاکستان کی نظریاتی وحدت میں خود کو سمونا بہت مشکل معلوم ہوا۔ ان کی خودمختاری کی خواہش اس لئے نہیں پنپ سکی کیونکہ عوام کی اکثریت اور مسلم لیگ کی نظریاتی قیادت پاکستان کی نظریاتی اساس سے جذباتی طور پر وابستہ تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی تمام کوششوں، پروپیگنڈے اور مسلسل جذباتی نعرے بازی سے ایک ایسی فضا بنائی جس نے ملک کو بظاہر چار وحدتوں میں تقسیم کر دیا اور آج اٹھارہویں ترمیم کے بعد پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ یوں لگتا ہے کہ یہ چار مختلف ممالک ہیں جو اپنی علاقائی ضرورت کی وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں، ورنہ ان میں تو کوئی قدر مشترک ہی نہیں ہے۔
نصابِ تعلیم علیحدہ کر دیئے گئے کیونکہ سندھ کے ہیرو، پنجاب کے لئے نہیں اور پنجاب کے ہیرو خیبرپختونخواہ کیلئے نہیں ہو سکتے۔ جس علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسے عملی طور پر پنجابی شاعر بنا دیا گیا، یہاں تک اس کی چھٹی تک منسوخ کر دی گئی۔ وہ رابطے کی زبان اُردو جسے ہرنائی، گلگت، میر پور اور طورخم سے چلنے والا ڈرائیور، کاروبار کرنے والا اور ہوٹل چلانے والا، سب کے سب استعمال کرتے ہیں اور جو اس ملک کی اکثریت کی ضرورت ہے اور وحدت کی علامت ہے، اُسے ایک کوشش کے تحت انگریزی نصابِ تعلیم سے تبدیل کیا جانے لگا۔
اس تمام تر آزادی و خودمختاری کے بعد اب پروپیگنڈے کی سازش کا عالم یہ ہے کہ امنِ عامہ، قیمتوں کا کنٹرول، نظامِ صحت، نظامِ تعلیم، پولیس، ذرائع آمدورفت، انصاف سب کا سب ان صوبائی اکائیوں کی ذمہ داری ہے، لیکن گذشتہ دس سالوں سے ناکامی کی ساری ذمہ داری وفاق پر ڈالی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ صوبوں کے بااختیار وزرائے اعلیٰ بنفسِ نفیس وفاق کے خلاف خود احتجاج میں شریک ہو رہے ہیں۔ وفاق کی حکومت اب صرف اسلام آباد کے چند مربع میل تک محدود ہے۔ اس کا وہی عالم ہے جو شاہ عالم ثانی کے زمانے میں مغل بادشاہت کا ہوا تھا کہ اس کی حکومت دِلّی سے پالم تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور پھر انگریز نے اسے تاخت و تاراج کر دیا تھا۔
انگریز کی بنائی ہوئی ان صوبائی اکائیوں نے، جنہیں آج قومی اکائی کہا جاتا ہے، اپنے اپنے صوبوں میں ایسے آمرانہ اور غاصبانہ نظامِ حکومت قائم کر رکھے ہیں کہ صوبوں میں موجود اقلیتوں کیلئے دن بدن سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وسطی پنجاب سے آپ سرائیکی علاقے کی طرف سفر کریں تو آپ کو فرق نمایاں نظر آئے گا۔ کمزور اور مضبوط دونوں آوازیں سنائی دیں گی۔ کراچی کا المیہ تو ایک ایسا ناسور ہے کہ سندھ صوبے کی اکائی نے وہاں ایسے حالات پیدا کئے تھے جن کی کوکھ سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے جنم لیا۔
دُنیا میں کسی شہر نے اس قدر خوف اور دہشت میں تیس سال نہیں گزارے ہوں گے جیسے کراچی کے شہریوں نے گزارے تھے۔ وہ کراچی جس کی آبادی وحدتِ پاکستان کی علامت ہے۔ کسی شہر میں اتنے پشتون نہیں رہتے جتنے کراچی میں رہتے ہیں، اتنے بلوچ، پنجابی، سرائیکی، سندھی، ہزارہ وال، کشمیری کسی ایک شہر میں نہیں رہتے جتنے کراچی میں رہتے ہیں۔ دُنیا کا ہر بندرگاہ والا تجارتی شہر ایسے ہی ہوتا ہے۔
انگریز حکومت کے دوران بمبئی، کلکتہ اور مدراس، تینوں علیحدہ علیحدہ انتظامی اکائیاں تھے۔ اس لئے کہ ان شہروں کی ترقی، امن اور اطمینان پورے ہندوستان کی خوشحالی کی ضمانت تھا۔ پاکستان کے صوبوں جیسے حجم اور رقبے والے صوبے رکھنے والے ممالک کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ اپنی وحدت کبھی قائم نہیں رکھ سکے۔ یوگوسلاویہ کے ایسے ہی تین صوبے بوسنیا، کروشیا اور سربیا تھے جو بڑی خونریزی کے بعد اب تین ملک ہیں۔ چیکو سلاویکیہ، اب چیک اور سلویک ممالک میں بٹ چکا ہے۔
بھارت جو قومیتوں کے حساب سے ہم سے کہیں زیادہ منقسم ہے، اس نے اپنی وحدت کو قائم رکھنے کیلئے خود کو 28 صوبوں میں تقسیم کیا جب کہ آٹھ یونین علاقے (Union Territories) بھی ہیں جن میں پنجاب سے علیحدہ کئے گئے صوبہ ہریانہ کا شہر چندی گڑھ بھی ہے جو اسلام آباد کی طرز پر آباد کیا گیا ہے اور اسے ایک وفاق کی علامت بنایا گیا۔ ایران جہاں فارسی بولنے والے صرف 47 فیصد ہیں اور باقی سب اقلیتی زبانیں اور نسلی طور پر مختلف لوگ آباد ہیں وہاں بھی صوبوں کی تعداد 31 ہے۔ افغانستان جہاں پشتون آبادی واضح اکثریت میں ہے وہاں بھی اس قومیتی جھگڑے سے نجات کیلئے 34 صوبے بنائے گئے ہیں۔
پاکستان کی صوبائی اقلیتیں اس وقت ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پر آ کر کھڑی ہو چکیں ہیں کہ اگر کسی ایک صوبائی ہیڈکوارٹر پر قابض اکثریت نے اپنے قوانین اور طرزِ عمل سے محکوم اقلیت کو دبانے کی کوشش تیز کی، تو اس کے نتیجے میں ایک خوفناک ردّعمل برآمد ہو سکتا ہے، جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر ملک کو ایسی سول وار کی جانب دھکیل دے جس کا کوئی انجام نظر نہ آئے۔ صرف ایک صوبے میں قومی تحریک کی دیکھا دیکھی باقی صوبوں میں بھی ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس میں امن و امان کی حالت کو خراب کرنا انتہائی آسان ہے۔ وہ ملک جس کی کل جی ڈی پی 278 ارب ڈالر ہو، جس پر بیرونی قرضے 116 ارب ڈالر اور اندرونی قرضے 204 ارب ڈالر ہوں، پوری دُنیا کے قرض خواہ ممالک خونخوار نظروں سے قرضوں کی وصولی کیلئے اس ملک کے اثاثوں کی طرف دیکھ رہے ہوں، ایسے میں اگر قومی سطح پر ایمرجنسی کے طور پر کوئی لائحہ عمل طے نہ ہوا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ (لائحہ عمل کیسا ہو سکتا ہے، اس پر اگلے کالموں میں بات ہو گی)۔