مولانا کیا کر سکتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان سے یہ میری پہلی تفصیلی تنہا یعنی ون آن ون ملاقات تھی۔ اس سے قبل مجھے یہ "شرف" کبھی حاصل نہ ہوسکا۔ شاید یہی میری خوش بختی ہے۔ مولانا کے والد محترم مولانا مفتی محمود کا میں احترام اس لئے کرتا ہوں کہ وہ ان قائدین میں سے ایک تھے جنہوں نے 1974ء کی تحریکِ ختم نبوت کی قیادت کی۔ اس تحریک کا ایک ادنی کارکن ہونے کو میں اپنے لیے توشۂ آخرت سمجھتا ہوں۔ ورنہ مجھے ان کے سیاسی نظریے بلکہ ان کی سیاسی زندگی سے کبھی اتفاق نہیں رہا۔ اپنے مخالفین کو مذہبی فتویٰ بازی سے زیر کرنا، طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنا مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو وراثت سے ملا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں 1970 کے انتخابات اپنے اندر ایک تلخ اور تکلیف دہ یاد چھپائے ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں پورا ملک بالکل ویسے ہی دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا جیسے پورا ہندوستان تقسیم سے پہلے ہوا تھا۔ مولانا مفتی محمود کی پارٹی کا اتحاد قوم پرست جماعتوں اور کیمونسٹ سوشلسٹ نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تھا جبکہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹیوں کی سرخیل تھی۔
شورش کاشمیری جس نے تمام عمر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ابوالکلام آزاد کے مکتب میں زانوئے تلمذ طے کیا، جو علمائے دیوبند کا نام قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح لیتا تھا، اس نے بھی 1970ء میں جمعیت العلمائے اسلام کی اس سیاست بازی سے تنگ آکر مولانا مفتی محمود اور ان کے دست راست مولانا غلام غوث ہزاروی کی اسقدر ہجویں لکھی ہیں کہ ایک ضخیم کتاب بن جاتی ہے۔ لاتعداد شعر تو ایسے ہیں کہ اگر میں انہیں یہاں نقل کر دوں تو مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا رخ میرے گھر کی طرف مڑ جائے اور میرا گھر نشان عبرت بنادیا جائے۔
1970ء کے الیکشن میں تہمت اور فتوے بازی اپنے عروج پرتھی۔ جس طرح آجکل ٹیلی ویژن کے ٹاک شو دیکھنے کا شوق بلکہ بھوت لوگوں کے سروں پر سوار ہوتا ہے، ویسے ہی اس زمانے میں سیاسی جلسوں میں رہنماؤں کی تقریریں سننے کا شوق عام تھا۔ یہی شوق مجھے بھی کشاں کشاں ہر سیاسی رہنما کی تقریر سننے لے جاتا، حالانکہ اسوقت میری عمر صرف بارہ سال تھی۔ اسی دور میں مولانا مفتی محمود کے جلسوں میں مولانا غوث ہزاروی ایک نعرہ انتہائی جوش سے لگواتے تھے اور جلسہ گاہ میں موجود ان کے پروانے ان سے کئی گناہ زیادہ جوش سے اسکا جواب دیتے تھے۔ نعرہ تھا "سو یہودی-اک مودودی"۔
یہ ہے وہ ورثہ جو جمیعت العلمائے اسلام کے کارکنوں کو ملا ہے۔ اگر صاحب تفہیم القران، قرآن و حدیث، فقہہ اور امور شرعی کا عالم، مغرب کے علمی طوفان کا تنِ تنہا مقابلہ کرنے والا، جس نے اکیس سال کی عمر میں مسلمانوں کے جہاد کو ظلم و دہشت قرار دینے کے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ" الجہاد فی الاسلام "لکھ کر کیا اور علامہ اقبال کی نظروں میں ایسا معتبرٹھہرا کہ انہوں نے اپنے دوست چوہدری نیازعلی کو لکھا کہ پٹھانکوٹ میں مولانا مودودی کو زمین عطا کرے تاکہ وہ یہاں آ کر کام کریں۔
علامہ اقبال نے چودھری نیاز علی سے جس دوسرے شخص کو پٹھانکوٹ میں زمین دلوائی تھی وہ علامہ محمد اسد تھے تاکہ وہ احادیثِ رسولﷺ کا ترجمہ کر سکیں۔ اگر ایسے عظیم مفکر اسلام کو جمعیت العلمائے اسلام کی قیادت اور پرجوش کارکن یہودیوں کے ہم پلہ قرار دے سکتے ہیں تو انکے مقابلے میں عمران خان بچارے کی کیا حیثیت ہے۔ اس کے لئے وضع قطع ہی کافی ہے کہ دیکھو یہودونصاریٰ سے کتنی ملتی ہے۔
حالانکہ آج بھی اگر یہودیوں کے کسی عالم دین یعنی ربائی کو دیکھیں وہ شکل و صورت سے کسی مسجد کا امام لگے گا۔ ایسی فتوی بازی کا حیرت انگیز مظاہرہ اسوقت بھی ہوا جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پاکستان قومی اتحاد کے وزیروں کو فارغ کر دیا تو مولانا مفتی محمود نے ضیاء الحق کو جو جالندھر کے ایک امام مسجد کا بیٹا تھا اور فوج کی ملازمت کے دوران جامعہ اشرفیہ میں آکر درس لیا کرتا تھا اسے قادیانی قرار دے دیا۔ معلوم نہیں معذرت کی یا نہیں کی، لیکن بعد میں حسن سلوک دوبارہ قائم ہوگیاتھا۔
مولانا فضل الرحمن اور انکی جماعت بالکل ایک مذہبی نہیں بلکہ سیاسی جماعت ہے جو ایک ایسے نظام کے تحفظ کی علمبردار ہے جو اللہ کے سامنے بغاوت کا اعلان کرتا ہے یعنی "جمہوریت"۔ یہ نظام عوام کی بادشاہت، حق حکمرانی اور اقتدار اعلی پر یقین رکھتا ہے۔ جمہوریت دراصل مالک کائنات کے تخت و تاج "الملک"پر ڈاکہ زن ہوتی ہے۔ پاکستان کے آئین کو اسلامی کہہ کر ایک ایسا فریب دیا گیا کہ لوگ اسے ایک اسلامی ریاست تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو ظلم، زیادتی، وحشت، نا انصافی ہوتی ہے اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سے بڑھ کر اسلام کے ساتھ اور ظلم کیا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسمبلی کے دو تہائی ممبران کو یہ مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ جب اور جس وقت چاہیں تمام اسلامی دفعات کو اکھاڑ کر پھینک دیں اور ان دفعات کے تحفظ کی کوئی ضمانت آئین میں موجود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے ایسا ہوا تو ہم عدالت میں جائیں گے، عوام اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کیسے خواب اور خوش فہمیاں ہیں۔ جمہوریت میں اللہ کا قانون نہیں پارلیمنٹ بالادست ہوتی ہے۔ اسی لئے پاکستان میں آئین کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے لیکن قرآن وسنت کی خلاف ورزی پر مکمل خاموشی ہے۔
یہ وہ نظام ہے جس کے تحفظ اور اس کی بقا کے لیے مولانا کی جماعت دیگر سیکولر لبرل، قوم پرست جمہوری سیاسی جماعتوں کی طرح سرگرم عمل ہے اور آجکل اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہی ہے۔ مارچ میں یہودیت اور قادیانیت کے فتوے اور نعرے بلند ہو رہے ہیں اور شرکاء کو جذبہ ایمانی سے ابھارا جارہا ہے۔ مولانا آخر چاہتے کیا ہیں۔ اسلام آباد میں جاکر کیا کریں گے۔ میری مولانا سے واحد تنہا ملاقات میں انہوں نے چند فقرے ایسے بولے جنہیں میں آج میچ کے دوران سوچتا ہوں تو حیرت میں گم ہو جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیں بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدل دیا اور آرٹیکل 370 کو ختم کیا۔
پاکستان نے بھی اسی طرح قبائلی علاقہ جات کی آئینی حیثیت کو بدل کر انہیں پاکستان میں ضم کیا۔ بھارت نے وہاں آپریشن کیا اور ہم نے بھی شمالی علاقہ جات میں ایسا ہی کیا۔ اسکے بعد دیر تک دیگر مماثلت بتانے کے بعد وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ ہنسے اور مجھ سے داد چاہی، لیکن میں تو حیرت کے جہان میں ڈوبا تھا۔ یعنی مولانا کے نزدیک بدترین، متعصب، مسلمان دشمن، ہندوتوا نظریے کی علمبردار، مودی حکومت اور انکی بھارتی فوج اور پاکستان کی مسلمان حکومت اور مسلمان فوج میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یہ بہت خطرناک سوچ اور طرز عمل ہے۔
بھارت کی فوج اور مودی حکومت ایک مسلمان علاقے اور عوام پر حملہ آور ہوئی ہے اور قرآن و سنت ایسی حکومت اور فوج کیخلاف جہاد کا درس دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی حکومت اور فوج اور عوام سب مسلمان ہیں اور ایک نظم اجتماعی میں اکٹھے ہیں۔ دونوں کا موازنہ ایک عالم دین کرے، یہ میرے لئے حیران کن تھا۔ لیکن کیا کریں جن لوگوں کے نزدیک مولانا مودودی جیسا عالم دین سو یہودیوں کے برابر ہو سکتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انکی زبان کون روکے گا۔ معلوم نہیں اسلام آباد پہنچ کر کون کون کافر، یہودی اور قادیانی کہلاتا ہے۔
میرا خوف صرف ایک ہے کہ مولانا جن سادہ لوح مقتدیوں کو اسلام کی سربلندی کا فریب زدہ نعرہ دے کر لائے ہیں انہیں وہ تعصب کی کس آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ میرا ڈر یہ ہے اللہ کرے کہ میرا یہ ڈر غلط ثابت ہو، کہ مولانا اسلام آباد پہنچ کر اس پرجوش ہجوم کے سامنے ایک نہیں دو استعفوں کا مطالبہ کرینگے۔ دوسرے استعفیٰ کا مطالبہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ پانچ دن سے یہودی، قادیانی فتوؤں کی آگ میں ابلتا ہوا آتش فشاں ہجوم اسوقت کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگا۔ اسکے بعد کیا ہوگا۔
مولانا کے ہاتھ میں تو کچھ نہیں آئیگا، لیکن نقصان بہت سوں کا ہوجائے گا۔ لیکن اگر مولانا کسی دوسری چال پر ہیں تو پھر وہ آدھی تو کامیاب ہوگئی۔ نوازشریف اور زرداری ریلیف کے راستے پر ہیں۔ رہا وزیراعظم کا استعفیٰ، اگر نہ ملاتو پنجاب کی قربانی ہو سکتی ہے۔ اس ملک نے تو رہنا ہے اور یہ رہے گا۔