اسلامی جمہوری سیاست کا المیہ
کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان کے حربوں اور چالوں میں سے کامیاب ترین چال مفلسی کا خوف قرار دیا ہے، فرمایا "شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے (البقرہ: 268)، اور آج پوری امت مسلمہ کی مذہبی و سیاسی قیادت پوری قوت سے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کو مفلسی کے خوف سے مسلسل ڈرائے چلی جا رہی ہے۔ وہ ایک اہم ترین ذمہ داری جو شیاطین نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی اس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بڑے بڑے صاحبان علم و فضل اور داعیانِ انقلابِ اسلامی میدان میں موجود ہیں۔
سیکولر جمہوری سیاست کو خالصتاً اوڑھنا بچھونا بنانے والوں سے تو کیا گلہ کہ انکا تو سارا نظام ہی اس جدید سودی معیشت کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔ گلہ تو ان سے ہے جنکی زندگیاں بوسیدہ چٹائیوں اور فاقہ و مستی میں دین پڑھتے گزریں۔ جن کے اسلاف صبر و استقامت کا درس دیتے رہے۔ یہ سب علمائے امت اور داعیانِ انقلاب ہزاروں کے جم غفیر میں جوشیلے نعرے بلند کرتے ہوئے ہجوم کے سامنے جب اپنے ایجنڈے کا اعلان کرتے ہیں تو انہیں مخالفین کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چھانے والی غربت، مفلسی، مہنگائی، بے روزگاری سے خوب ڈراتے ہیں، خوفزدہ کرتے ہیں اور اپنے اقتدار میں آنے کے بعد خوشحالی کا خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے مہاتیر محمد اور عمران خان تک اگر کوئی یہ دعویٰ کرے تو مجھے حیرت نہیں ہوتی، اس لیے کہ جدید جمہوری کاروبارِ سیاست کا یہی دستور ہے۔ خوشحالی کے لالچ سے ہی ووٹ ملتے ہیں۔ لیکن وہ جو سنت رسول ﷺ کے داعی ہیں، قرآن و حدیث کے علم کے غواض ہیں، وہ جو دوسروں کو "ریاست مدینہ" کے لفظ اور تصور کے غلط استعمال کا طعنے دیتے ہیں، کیا قرآن کی تعلیمات اور احادیث کے ذخیرے میں سے کوئی ایک آیت یا حدیث بھی ایسی دکھا سکتے ہیں کہ جس میں اللہ نے یا سید الانبیاء ﷺ نے اسلام قبول کرنے کی نعمتوں میں اس بات کا خصوصا ً ذکر کیا ہو کہ تم خوشحال ہو جاؤ گے۔
مکّہ کی زندگی جو فقر و فاقہ اور عسرت سے عبارت تھی، اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے نادار و مفلس صحابہ کو طاغوت کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لیے تیار کیا، معاشی قوت بننے کیلئے نہیں۔ ایک دن کے لیے بھی آپ نے انہیں معاشی وسائل کی تگ و دو میں مسلسل مصروف ہونے کا درس نہیں دیا۔ ووٹ کی خاطر مہنگائی اور بیروزگاری پر ریلیاں نکالنے اور دھرنے دینے والی مذہبی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو رسول اکرم ﷺکی یہ حدیث اور ایسی بے شمار احادیث کیوں یاد نہیں آتیں، فرمایا، "جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کرکے لوگوں سے بیان کرتا پھرے تو اسکا فاقہ ختم نہ ہوگا" (ترمذی)۔
حدیثوں کا ذخیرہ اور قرآن پاک کے احکامات بار بار لوگوں کو مال کے فتنے سے ڈراتے ہیں۔ بلکہ اللہ ان جدید معاشی ترغیبات کے بالکل برعکس خوشحالی کو عذاب کی خشت اوّل بتاتا ہے اور غفلت کی علامت کا نتیجہ ٹھہراتا ہے، "پھر جب وہ اس نصیحت کو بھول گئے جو انکو کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، تب وہ ناامید ہوکر رہ گئے (الانعام: 44)۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اللہ آج کی جدید معاشرت کے معیارات پر بھی ایک واضح اور بسیط حکم صادر فرماتا ہے۔ وہ جدید معاشرت و معیشت کے معیارات کو دھوکہ اور فریب قرار دیتا ہے۔ آج ہماری خالص جمہوری سیاست ہو یا مذہبی جمہوری سیاست، ان دونوں کے نزدیک ترقی، خوشحالی اور کامیابی کے معیارات اور نمونے ترقی یافتہ شہر اور پر رونق دنیا ہے۔ لیکن میرا اللہ بہت بڑی وارننگ دیتا ہے۔
فرماتا ہے "آپ کو کافروں کا شہروں میں (خوشحالی کیساتھ) چلنا پھرنا ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے (جو یہ اڑا رہے ہیں) پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین بچھونا ہے (آل عمران: 196,197)۔ قرآن پاک بار بار مال کو فتنہ سے تعبیر کرتا ہے اور ہادی برحق رسولِ رحمت ﷺ نے اپنے وصال سے چند دن قبل بیماری سے صحت یابی کے وقفے میں جو آخری خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں کس قدر دوٹوک الفاظ میں فرمایا، "ہر امت کے لئے ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے (نسائی)۔
مال ودولت زر و سیم، خوشحالی اور تعیش، یہ سب کچھ آج کی سیاست اور جمہوریت میں سکہ رائج الوقت ہے، اور یہ سکہ ہر زمانے میں ایسے ہی چلتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مفلسی اور غربت کے خوف کو شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دے دیا ہے اور مفلسی و ناداری ہی میں طاغوت کے مقابل کھڑے ہونے، اللہ کے دین کا پرچم بلند کرنے اور اس کے نام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے کو ہی اللہ نے مومن کی معراج کہا ہے اور اسے ہی اصل کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔
تجھے گر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
یہ خودی کا خاتمہ خود علامہ اقبال کی زبانی سورہ الحشر کی آیات سے ماخوذ ہے۔ جن سے علامہ نے تصورخودی اخذ کیاتھا۔ اللہ فرماتا ہے "تم ان جیسے نہ ہو جانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا (الحشر: 19)۔ پوری امت میں آج جو خودی کی موت ہے، ذلت و رسوائی ہے، محتاجی و ناداری ہے، ان سب کی وجہ میرے اللہ کے نزدیک معاشی پالیسیاں ہیں نہ جمہوریت وآمریت کی کشمکش، بلکہ اسکی وجہ اللہ کو بھول جانا ہے۔ اللہ کو بھولنے کا مطلب دراصل یہ ہے کہ طاغوت کے سامنے سرنگوں ہوجانا، اس سے سمجھوتا کرنا۔
سیکولر جمہوری پارٹیاں اگر ایسا کریں تو یہ ان کی سیاست کی معراج ہے۔ انہیں دنیا میں تنہا ہونے کا خوف لاحق ہو تو ان کے آدرشوں کے مطابق جائز، وہ اگر یہ دعویٰ کریں کہ ہم برسراقتدار آکر عالمی برادری میں مسلمانوں کی تنہائی کو دور کریں گے تو یہ کامیابی کی علامت۔ لیکن اگر کوئی منبر و محراب سے اٹھ کر جمہوری اسلامی سیاست کا نقیب ہو اور پھر اس عالمی تنہائی کا رونا روئے تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کاش وہ مخبر صادق ﷺ کی یہ بشارت ہی ذہن میں رکھ لیں، فرمایا "اسلام کی ابتداء اجنبیت میں ہوئی تھی اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع میں تھا۔ تو ایسے وقت میں اسلام پر قائم رہنے والے "اجنبیوں" کے لئے خوشخبری ہے (صحیح مسلم)۔
کیا وہ تمام دھرنے، جلوس، اسمبلی کی تقریریں جو مذہبی سیاسی پارٹیوں کے رہنما مسلسل کرتے ہیں ان میں معاشی خوشحالی مقدم نہیں ہے، کیا یہ لوگ مسلمانوں کو پوری دنیا سے کٹ کر"اجنبی" کہلانے پر فخر کا درس دیتے ہیں، کیا یہ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اجنبی یعنی Isolated ہونے والوں کوہی کامیابی کی خوشخبری دی ہے۔ جمہوری حکمرانوں سے ان علماء کی جنگ معیشت پر ہوتی ہے اور آمروں سے یہ جمہوریت کی بحالی پرجنگ اور پھر معاملہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایک وردی اتارنے کے بدلے مشرف کے تمام سیکولر قوانین حتی کہ اسمبلیوں میں ایک تہائی خواتین کی نشستیں بھی شرح صدر کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
ووٹ میں کتنی طاقت ہے کہ کئی سالوں کی دینی تعلیم اور کئی عشروں کی اسلامی انقلاب کی جدوجہدسب کچھ بھلا دیتی ہے۔ صرف الیکشن، ووٹ، ممبری اور حکومت یاد رہ جاتے ہیں۔ نہ کسی کو اپنے اردگرد پھیلتا الحاد کا طوفان نظر آتا ہے اور نہ ہی بے حیائی کا سیلاب۔ عالمی استعمار اور سودی معیشت آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے اوربس اسمبلی کی سیڑھیاں یاد رہ جاتی ہیں۔ کاش یہ سب اسلامی مذہبی سیاسی پارٹیاں اپنے نام کے ساتھ اسلامی کا سابقہ اور لاحقہ لگانا ترک کردیں کہ پھر انہیں بھی اس جمہوری پیمانے پر تولا جاسکے جس پر باقی سیاسی پارٹیوں کو تولا جاتا ہے۔ پھر ان سے شاید کوئی گلہ ہی باقی نہ رہے۔