بد قسمت قوم کے سفّاک حکمران
میں نے اس سے پہلے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی حکمران اس قدر بھی سفّاک ہو سکتا ہے کہ امریکی خوشنودی اور ذاتی اقتدار کو بچانے کے لئے عوام کی جیبوں سے پیسے لوٹ کر اپنے آقائوں کی جیب میں ڈالنے لگے۔ گذشتہ چند دنوں سے یہی ہو رہا ہے کہ عوام کا گوشت کاٹ کر تیل بیچنے والے عالمی بھیڑیوں کو کھلایا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے پڑوس میں بھارت اور سری لنکا امریکی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے سستا تیل خرید کر اپنے عوام کو سستے تیل کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور اب بنگلہ دیش بھی اس صف میں شامل ہو رہا ہے۔
ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سی این این کی نیوز اینکر بیکی اینڈرسن (Becky Anderson) کو انٹرویو میں کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے روس سے تیل کی خریداری کے لئے خط لکھا تھا لیکن اس خط کا جواب نہیں آیا، اور اب چونکہ روس پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر دی ہیں، اس لئے ہمارے لئے اس سے تیل خریدنا مشکل ہو گا۔ خط کا جواب کیسے آتا۔ اس جواب ہی کو روکنے کیلئے تو آپ کو ہم پر مسلّط کیا گیا ہے۔ کیا یہ پابندیاں صرف پاکستان کے لئے لگائی گئی ہیں۔ لیکن بدقسمت قوم پاکستانی ہی ہے جس کے "نوزائیدہ" حکمران پابندیوں کو مانتے ہوئے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
بھارت ان ممالک میں سے ایک ہے جو امریکہ کے بنائے گئے اس چار ملکی اتحاد (QUAD) کا اہم رکن ہے جو موجودہ عالمی کشمکش میں چین اور روس کے خلاف سب سے بڑا عسکری اتحاد ہے۔ بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل، اس جنگی گروہ کا بنیادی مقصد چین کی معاشی پیش قدمی کو روکنا ہے۔ چونکہ چین کا دُنیا بھر میں اہم عسکری اتحادی روس ہے، اسی لئے پینٹا گون نے نومبر 2019ء میں جو انڈوپیسفک (Indo Pacific) حکمتِ عملی دی، اس کے مطابق روس کو ایک ایسا کینسر بتایا جس کی معاشی اور عسکری قوت کا خاتمہ بہت ضروری قرار دیا۔
چین کے خلاف تو ابھی تک کوئی بڑا عسکری محاذ نہیں کھولا گیا، لیکن روس کی معاشی ناکہ بندی اور اس کو عسکری محاذ پر دبائو میں لانے کے لئے اس کے اہم دوست پڑوسی ملک یوکرین میں 2014ء میں اپوزیشن رہنمائوں کو خرید کر روس نواز وزیر اعظم کی حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد لایا گیا جسے "اورنج انقلاب" کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ روس یوکرین کی ان تیرہ بندرگاہوں کو استعمال نہ کر سکے جو باسفورس میں موجود ہیں۔ یوکرین کا سمندر سے منسلک ایک اہم ترین حصہ کریمیا ہے۔
روس نے 20 فروری 2014ء کو کریمیا پر حملہ کیا۔ ایک ماہ چھ دن جنگ چلتی رہی اور 26 مارچ کو اس پر قبضہ کر لیا گیا۔ کریمیا میں آبادی کی اکثریت چونکہ روسی النسل تھی اور وہ روس کے ساتھ اتحاد چاہتی تھی، اس لئے روس نے وہاں سولہ مارچ کو ایک ریفرنڈم کروایا جس میں عوام کی اکثریت نے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں 26 مارچ کو روس نے کریمیا کو اپنا حصہ قرار دے دیا۔
امریکہ نے فوراً 27 مارچ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا، جس میں ایک قرارداد کے ذریعے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اب روس کے پاس کریمیا کے ساحلوں پر موجود پانچ بندرگاہیں (1) کیریچ(Kerch)، (2) یلٹا (Yelta)، (3) سواستوپول (Sevastopol)، (4) فیڈوسیا (Feodosiya) اور (5) ییواپاٹاروئی (Yevpatoriy) بھی آ گئیں۔ اس اقدام نے امریکہ کے منصوبے کو گہری زک پہنچائی، کیونکہ روس اب اپنا تیل اور دیگر اشیاء بحرۂ قلزم کے ذریعے آسانی سے برآمد کرنے کے قابل تھا۔ اس شکست کے بعد یوکرین کے باقی ماندہ حصے کو نیٹو میں شامل کر کے وہاں امریکی اڈے بنا کر روس کو خوفزدہ کرنے کی کوشش شروع ہوئی تو روس نے یوکرین پر بھی براہِ راست حملہ کر دیا تاکہ اپنے خلاف تمام خطرات کا بھر پور مقابلہ کر سکے۔
امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگا دیں۔ یہ تھے وہ حالات جس کے دوران عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور پاکستان نے روس سے سستی گیس اور تیل کے لئے تحریری درخواست بھی کی۔ چونکہ پاکستان اور یوکرین ہی دو ایسے ممالک ہیں جن پر غلبہ حاصل کر کے چین اور روس کے سمندری راستے مسدود کرنا پینٹاگون حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
اسی لئے فوراً پاکستان میں یوکرین کی طرز پر اپوزیشن کے رہنمائوں کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو تبدیل کیا گیا اور شہباز شریف کی مخلوط حکومت کو لا بٹھایا گیا، آج جس کا مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل امریکہ سے ڈرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ "ہم پابندیوں کی وجہ سے روس کا تیل نہیں خرید سکتے"۔
روس اور چین کے خلاف امریکی جنگی محاذ کا اہم ترین رکن بھارت ہے۔ لیکن بھارت کی قیادت کو چونکہ اپنے عوام کی خوشحالی عزیز ہے اور ان کی تکلیفوں کا احساس ہے، اس لئے اس نے امریکہ کے ساتھ تمام معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے اور تمام عالمی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے سستا تیل خریدنے کا آغاز کر دیا۔ بھارت عالمی منڈیوں سے تیل خریدنے والا دُنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
بھارت نے گذشتہ سال اپریل 2021ء سے مارچ 2022ء تک 62.2 ارب ڈالر کا تیل خریدا تھا۔ اس میں سے صرف مارچ کے مہینے میں 13.7 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے، کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ گذشتہ سال مارچ 2021ء میں بھارت نے اسی مقدار میں تیل صرف 8.4 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔ بھارت بھی اگر پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرح امریکہ سے خوفزدہ ہو کر روس سے تیل نہ خریدتا، تو اس کی معیشت مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتی۔
بھارت نے اپنے عوام کا خیال رکھا اور روس سے تیل خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بھارت روس کے تیل کا دُنیا بھر میں سب سے بڑا خریدار ہے۔ روس نے فروری، مارچ 2022ء میں بھارت کو ایک قطرہ بھی تیل نہیں بیچا تھا، لیکن صرف اپریل میں روس نے روزانہ چھ لاکھ ستائیس ہزار بیرل تیل بھارت کو فروخت کیا۔ روس کے اس تیل کی قیمت اپریل 2022ء میں 69.89 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ اسی کوالٹی کا تیل عالمی منڈی میں 104.40 ڈالر فی بیرل پر دستیاب تھا۔ اس سے صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ شہباز شریف حکومت نے روس کے تیل کی نسبت 34.51 ڈالر فی بیرل مہنگا تیل خریدا۔ یہ تیل پاکستان کو بھارت سے بھی سستا پڑتا، کیونکہ بھارت کا بالٹک کی بندرگاہوں سے فاصلہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
بھارت نے مئی میں 24 ملین بیرل روس سے تیل خریدا ہے اور جون میں یہ تعداد بڑھ کر 28 ملین بیرل ہو جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش جیسا کمزور ملک جس کی دفاعی صلاحیت بھی پاکستان سے بہت کم اور اس کی مارکیٹ بھی بہت چھوٹی ہے، اس کے وزیر خارجہ اے کے ابوالمومن نے بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی ہے اور اس کے بعد پریس کو بتایا کہ ہم نے بھارت سے کہا ہے کہ ہمیں روس سے تیل خریدنے کے لئے معاہدے میں مدد دے۔
سری لنکا جیسا ملک جہاں ابھی اتنے بڑے ہنگاموں کے بعد حکومت تبدیل ہوئی ہے اس نے بھی گذشتہ ہفتے روس سے 73 ملین ڈالروں کا تیل خریدا ہے۔ یہ تمام ممالک امریکہ سے بے خوف ہو کر اور پابندیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے عوام کی فلاح کے لئے روس سے سستا تیل خرید رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی "نوزائیدہ" حکومت جسے یقیناً ایک ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے، وہ امریکی ہدایات پر مہنگا تیل خریدتی ہے اور پھر تیس روپے فی لٹر اضافہ کر کے ڈھٹائی سے عوام سے جھوٹ بولتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
کیا اب بھی سمجھ نہیں آتا کہ اس حکومت کو لانے کے پیچھے ایجنڈا صرف ایک ہی تھا کہ پاکستان کو دیوالیہ کیا جائے تاکہ اس کے اثاثوں پر مرضی کا مکمل کنٹرول حاصل ہو سکے۔