’’ملین مارچ‘‘ کو واپس بھیجنے کیلئے حکومت اور مولانا کی مشکلات
اتوار کی رات سوشل میڈیا پر چھائے "لبرل" مفکرین سے یہ "اطلاع" پاکر سویا تھا کہ اپنے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن "بکری" ہوئے سنائی دئیے۔ ان کے مذکورہ خطاب سے قبل میرے وہ معتبر وباوقار ساتھی جن کی باتیں "منصور کے پردے" میں ہمارے مقدر کے اصل مالکوں کی خواہشات بیان کرنے کی دعوے دار ہیں، یہ "خبر" بھی دے چکے تھے کہ مولانا کو واضح الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ بہت ہوگیا۔ اب انہیں "آئندہ چند گھنٹوں " میں اسلام آباد سے واپسی کی تیاری کرنا ہوگی۔
منگل کی صبح اٹھا ہوں تو مولانا کے مارچ کے ہمراہ آئے افراد اسلام آبادمیں بدستور اسی مقام پر ڈٹے ہوئے تھے جو انتظامیہ نے ان کے لئے مختص کررکھا ہے۔ پیر کی شب وفاقی وزراء پر مشتمل حکومتی ٹیم نے مولانا کے ساتھ مذاکرات کا ایک دور بھی مکمل کیا۔ وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد منگل کے دن ان کی مولانا سے ایک اور ملاقات بھی متوقع ہے۔ میرے پاس ٹھوس ذرائع سے ہرگز یہ خبر میسر نہیں کہ پیر کے روز ہوئی ملاقات میں کیا نکات زیر بحث آئے۔ مولانا نے اگرچہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کو "کم از کم" بتاکر پیش کیا گیا ہے۔
بطور ایک سابق رپورٹر میری عاجزانہ رائے میں اہم ترین سوال اس وقت یہ ہے کہ اگر عمران حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے مابین باقاعدہ طورپر بنائی ٹیموں کے ذریعے "مذاکرات" کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے تو پیرکی شب چودھری شجاعت حسین صاحب خرابی صحت کے باوجود اسلام آباد آنے کو کیوں مجبور ہوئے۔ مولانا سے مذاکرات کرتے ہوئے وہ "کس" کی نمائندگی کررہے تھے۔ اگرچہ اس تاثر کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک بہت ہی تجربہ کار سیاست دان ہوتے ہوئے چودھری شجاعت صاحب نے ازخود یہ محسوس کیا ہوکہ حالات بہت گھمبیر ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں کے مشورے کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک مشکل صورت حال کا حل ڈھونڈنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کا "ازخود"متحرک ہونا بھی یہ عندیہ دیتا ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے ریگولر ا ور سوشل میڈیا پر یاوہ گوئی کرنے والوں کونظر آرہے ہیں۔
میرے بے تحاشہ "لبرل" دوست انتہائی حقارت سے اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن "مدرسوں کے طالب علموں" پر مشتمل ایک غول کے ہمراہ اسلا م آباد آگئے ہیں۔ ملکی سیاست میں ان کا مقام نہ ہونے کے برابر ہوچکا تھا۔ "مذہبی کارڈ" کھیلتے ہوئے وہ "مذہب کے نام پر مشتعل" کئے ہجوم کی طاقت سے خود کو دوبارہ Relevant بنانا چاہ رہے ہیں۔ ریاست کو ان سے "بلیک میل" نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی جیسی "روشن خیال" جماعت کو ان سے قطعی لاتعلقی اختیار کرنا چاہیے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے "سنجیدہ اور تجربہ کار" رہ نمائوں کا رویہ میرے "لبرل" دوستوں کو اس ضمن میں زیادہ معقول نظر آرہاہے۔ اس رویے کی بدولت ا نہوں نے مبینہ طورپر نواز شریف اور ان کی دُختر کے لئے مناسب "ریلیف" کا بندوبست بھی کرلیا۔
بہت ہی پڑھے لکھے لبرل حضرات سے بحث میں الجھنے کی مجھ میں ہمت وجرأت نہیں۔ محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے چند حقائق پر توجہ دینے کو مجبور ہوں۔ مولانا کے "مذہبی کارڈ" کے بارے میں میرے بھی ہزاروں تحفظات ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز مگر کیا نہیں جاسکتا کہ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد سے وہ ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ شہر شہر جاکر اپنی جماعت کی Base کو متحرک کرتے رہے۔ اپنی تحریک کو انہوں نے "ملین مارچ" کانام دیا۔ ہماری آزاد اور بے باک ٹی وی سکرینوں پر مولانا کے مختلف شہروں میں ہوئے "ملین مارچ" کا ذکر تک نہ ہوا۔ اخبارات کی بدولت بھی ہم یہ جان ہی نہ پائے کہ اپنے "ملین مارچ" کے ذریعے مولانا اپنی جماعت کی Base کو کیا پیغام دیتے ہوئے متحرک کررہے ہیں۔
چونکہ ہم ان کے دئیے پیغام سے لاعلم رہے۔ اسے صحافتی مشاہدے کے ذریعے بیان کرنے سے قاصر رہے اس لئے خلقِ خدا یہ تصور کربیٹھی کہ جیسے مولانا فضل الرحمن 2019 کے طاہر القادری ثابت ہوں گے۔ اپنے "مریدین" کے جتھے کے ہمراہ اسلام آباد آئیں گے اور بالآخر چند "ڈرامائی" تقاریر کے بعد کوئی ہدف حاصل کئے بغیر اس شہر سے واپس لوٹ جائیں گے۔
اس کالم میں بارہا فقط یہ عرض کرتا رہا کہ مولانا کا "مذہبی کارڈ" فی الوقت اہم نہیں۔ کلیدی حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی جماعت "منہاج القرآن" جیسی نہیں۔ اس کی جڑیں تاریخی ہیں۔ کہانی کا آغاز شاہ ولی اللہ سے ہوتا ہے۔ بعدازاں 1857ء ہوا۔ اس کے بعد ریشمی رومال تحریک۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1970 میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر جو انتخابات ہوئے تھے جمعیت العلمائے اسلام نے اس میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات کے نتائج کی بدولت مولانا مفتی محمود ماضی کے صوبہ سرحدکے "سیکولر" نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت میں بھی یہ دونوں جماعتیں شریک اقتدار تھیں۔ نیشنل عوامی پارٹی جب "کالعدم" ٹھہرائی گئی تو ولی خان کی گرفتاری کے بعد مولانا مفتی محمود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی میں قائدِ حزب احتلاف رہے۔ 1977 میں بھٹو صاحب کی جماعت کے مقابلے کیلئے "نوستاروں " کا جو اتحاد ہوا اس کی قیادت بھی مفتی محمود مرحوم کے پاس تھی۔
مولانا فضل الرحمن اپنے والد کی وفات کے بعد 1980 کی دہائی میں ہمارے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ جنرل ضیاء کے خلاف بنائی ایم آر ڈی کے اہم ترین رہ نما رہے۔ 1988 سے 1999 تک قائم رہے سیاسی منظر نامے میں مولانا فضل الرحمن کی اہمیت برقرار رہی۔ جنرل مشرف کے ٹیک اوور کے بعد 2002 میں جو انتخابات ہوئے اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت میں بھی مذہبی جماعتوں کا یہ اتحاد شریک اقتدار رہا۔ مولانا فضل الرحمن 2002 سے 2007 تک قائم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔ مشرف کی رخصت کے بعد بھی مولانا کی جمعیت سیاسی اعتبار سے مؤثر گردانی جاتی رہی۔
عروج وزوال سیاست کا اہم ترین پہلو ہے۔ 2018 کے انتخابات نے یقینا مولانا کو سیاسی اعتبار سے کمزور تر بنادیا۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ اپنے زوال سے پریشان ہوکر وہ گوشہ نشین ہوگئے۔ ہرگز نہیں۔ ایک لمحہ زخم چاٹنے کو گھر نہیں بیٹھے۔ شہر شہر "ملین مارچ" کے انعقاد کے ذریعے اپنی Base کو متحرک کرنے کی لگن میں جت گئے۔ اسلام آباد میں ان دنوں موجود "مارچ" ان کی مسلسل محنت کا ثمر ہے۔
اس مارچ میں موجود افراد "مدرسوں کے بچے" نہیں ہیں۔ اکثریت کی اوسط عمر 30 سے 50 سال کے درمیان ہے۔ اصولی طورپر وہ ان کارکنوں کے نمائندہ ہیں جو کسی سیاسی جماعت کے نظریاتی Cadre شمار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ"مرید" نہیں ہوتے۔ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن انہیں بھیڑوں کے غول کی صورت اپنی Whims کے مطابق کسی سمت ہنکا ہی نہیں سکتے۔
جے یو آئی میں مقامی سطح سے مرکزی سطح تک کارکنوں اور رہ نمائوں کے جو مشاورتی اجلاس ہوتے ہیں ان میں زور دار مباحثے ہوتے ہیں۔ اس مشاورت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے آپ کو محض یہ بتانا ضروری ہے کہ آصف علی زرداری سے قریبی دوستی کے باوجود مولانا کو گھوٹکی میں ہوئے قومی اسمبلی کے ایک ضمنی انتخاب میں اپنی جماعت کے کارکنوں کو پیپلز پارٹی کے نمائندہ امیدوارکی حمایت پر آمادہ کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی تھی۔ آصف علی زرداری سے ان کی "دوستی" مگر لاڑکانہ میں صوبائی اسمبلی کے ایک حالیہ ضمنی انتخاب میں کام نہیں آئی۔
مولانا فضل الرحمن کے لئے اب مشکل ترین سوال یہ ہے کہ اپنی جماعت کے جن کارکنوں کو وہ ایک سال کی محنت کے بعد اس ماہ کے آغاز میں اسلام آباد لائے ہیں انہیں "کیا" دکھاکر گھر واپسی پر آمادہ کریں۔ ایک تجربہ کار سیاست دان ہوتے ہوئے چودھری شجاعت حسین صاحب کو مولانا کی اس مجبوری کا خوب اندازہ ہے۔ اسی باعث وہ اپنی صحت کی مجبوریوں کے باوجود بستر سے اُٹھ کر اسلام آباد آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد سے واپس بھیجنے کے لئے ٹھوس سیاسی اعتبار سے کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ عمران خان صاحب وزارتِ عظمیٰ سے ا ستعفیٰ دیں۔ میڈیا کی آزادی اور پارلیمان کی بالادستی وغیرہ کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی اس ضمن میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔