میرے وطن کے شعلہ نوا رہے ابلیسی
اضطراب اور بے چینی ترقی افزوں ہے اور کسی طرح بھی کوئی بند بندھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ فرد کو تو حالات نے بہت زیادہ پریشان کر دیا ہے اور افراد کو ہانکنے والے گدڑیوں نے ابھی تک اپنی خو نہیں بدلی۔ چوری اور سینہ زوری کا مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ نصیحت کرنے والے مر گئے اور نصیحت نہ سننے والے ایسے بگڑے کہ وہ ناصحین کا کفن کھسوٹ کر بھی نچلے نہیں بیٹھ پا رہے۔ کورونا نجانے کتنے پنجے گاڑ چکا ہے اور یہ بلائے ناگہانی ابھی کتنی دیر تک پوری دنیا کو زیر و زبر کرتی رہے گی۔ لیکن ایک تشویشناک وار اس خدائی عذاب کا یہ ہے کہ غافلین، غاصبین اور انسانیت کے اعداء نے اپنے لئے اس کار زار حیات میں نئے مشاغل تلاش کر لئے ہیں اور چوری ڈاکے کا اہتمام اتنا دلربا ہے کہ بے چارے غریب مستلاشیان شفا وراحت
سر خود نہاد و برکف
اپنے آپ کو ذبح کروانے کے لئے ان ضمیر فروشوں کے ٹھکانوں کو آباد کرتے ہیں۔ امیدوں کی دنیا میں آباد لوگ اس خدائی عذاب کے جلد ٹلنے کی توقع رکھتے ہیں اور اپنی راحت، اپنی اولاد کی راحت کو تلاش کر رہے ہیں۔ اندھا عذاب، نہ ٹلنے والا عذاب اور دنیا کا المناک عذاب تو یہ ہے کہ انسان انسان دشمنی میں اندھا ہو جائے۔ جنون پر بھی حیوانیت غالب آ جائے اور اس کی بصیرت کو شیطان اپنی عداوت کی چٹکی سے مسل کر رکھ دے۔ ہم پاکستانی ہیں۔
ہم مسلمان ہیں ہمارے دشمن بھی اسی تقاضے کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ابلیس کی شاگردی میں کمال جور اور سفلہ پن کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ آسمان سے عذاب اترے یا زمین مصائب اُگلے، یہ عذاب کچھ دیر بعد اپنا راستہ بدلتے ہیں اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ بلائیں اور وبائیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ لیکن ذلت طلبی کا جو ذھن نفس و شیطان کی فراہم کردہ قوت کو خوراک فکر دیتا ہے۔ وہ مستقل الجھی ہوئی مصیبتوں کو جنم دیتا ہے۔ اندھے ذہن میں خیالات کا اندھیرا صدہااندھی غاروں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اندھی غار تک کوئی جاتا ہے تو وہی شکار ظلمات ہوتا ہے۔ لیکن اندھے اذھان تو معاشرے میں تقسیم نور کے نام پر فلاحی نعروں کے ساتھ اترتے ہیں۔ اندھے ذہن اپنی ذات کے حصار میں بہت بڑے شیطان معبروں کے پروہت ہوتے ہیں۔ وہ علم کے نام پر جہالت اور انسانیت فراموشی کے بہت بڑے عنائت کار ہوتے ہیں اور اگر یہ علم عقیدے یا عقیدت کے شامیانے میں نشو و نما پائے تو ایمان کے ڈاکو دن دھاڑے لوٹ مار کرنا بہت سہل جانتے ہیں اور اپنی وارداتوں کو اتنا پھیلائو دیتے ہیں کہ معاشرت کا سکہ رائج الوقت ڈکیتی بنتا ہے۔
یہ بدقسمتی ہے اور گناہوں کی سزا میں ہم مبتلا ہیں کہ ہر سمت ڈاکوئوں کے بہت ہی دلربا اور پرفریب ٹھکانے ہمیں اپنی طرف بلاتے ہیں اور ہم نحوست کا شکار اپنی دھن دولت لٹوانے کے لئے قطار اندر قطار کھڑے ہیں اور اندھیروں کی دنیا میں پھانسی کے منتظر ہیں۔ سادہ لوح بندوں کے لئے ہر راہ میں، ہر شاہراہ پر ہر قرب منزل سرائے میں سلطان عیاراور طرحدار درویش شیطنت مست براجمان ہیں۔ سلطان عیارکے ساتھ ظلمات کے پجاریوں کی ٹولیاں ہیں کتریلی زبان سے فساد جدید کا سامان تازہ کرتے ہیں اور طرحدار درویش فساد مست کی لغت خطاب میں توہین کا معنیٰ تحقیق ہے۔ تلبیس کو خیر کے محاورے میں استعمال کرتے ہیں۔ نادانی کو عقل کامل کا نام دیتے ہیں، اعتقادی صالح جذبات کو جنون فاسقانہ کا نام دیتے ہیں اور اپنی انا کے تحفظ کو خدائی آواز بتاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں عرب و عجم کی مسلمان ریاستوں کا دنگل بقائے مسلک کے نام پر پاکستان میں برپا ہوا۔ ہر رنگ فساد بدلا، بہت خاموش دشمن لباس مومناں پہن کر مزارات پر حملہ آور ہوا یوں ہر مسلکی شناخت بڑھتی چلی گئی۔
ناموس رسالتﷺ کا موضوع اب طاق نسیان ہے۔ قزاقانِ نبوت کی کہانی اب متروک البیان ہے۔ عجمی شیطانوں کی ذریت بغایا اب ایوانوں میں براجمان ہے۔ توحید و رسالت پر دشنام باز اپنی کمین گاہوں سے اشارہ ابلیسی کر رہے ہیں۔ بدزبان اپنے اپنے مورچوں پر اچھل کود کر رہے ہیں۔ یہودی اور ہندو اب بہت معتبر نظر آتے ہیں۔ کشمیر کے مقہور مسلمان، جبر کا شکار نوجوان، اسلام کی عفت مآب بیٹیاں اپنے آنچل کے تحفظ سے بھی قاصر ہیں۔ دنیا کی مظلوم ترین اجتماعی قید کشمیر میں انسانیت سوزی کا مرقع بنی ہوئی ہے اور ملت اسلامیہ کو نصرت و دستگیری کے لئے پکار رہی ہے۔ پیچیدہ اور لاینحل مسائل کو احتیاط و سکوت کی اس فضا میں دیکھنے کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے اور آج کی منتشر اور بدحالی کی مذہبی سیاسی اور معاشیاتی دگرگوں فضا میں یہ تقاضا بہت ہی شدید ہو جاتا ہے۔
امت مسلمہ کے آسودہ حالی میں خرابی اور رخنہ اندازی کا ایک تسلسل ہے۔ جس کے پس پشت تاریخ کی ثابت شدہ وہ خفیہ سازشیں ہیں۔ جو ابتدائے اسلام ہی سے یہودیوں کی مکارانہ ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ ایک کتاب مسلسل اور روایت متواتر ہے جس کی تفصیلات میں یہودی ملت کی انسانیت دشمنی کی بہت خاموش کہانی کا ملاحظہ کرنا آسان ہے۔ سینکڑوں تاریخی کتب تحقیق و حقیقت کی راہ فراہم کرتی ہیں۔ دینی اداروں دینی رہنمائوں اور دینی اذھان کو اپنی فکر ابلیسی کی زد میں مستقل رکھنا اور پھر سادہ اسلامی معاشروں میں پر پیج اور گنجلک انداز سے افکار فاسدہ کو علم اور جدت کے نام پر متعارف کروانا قدیم سے آج تک ہر دور کے نمائندہ اسرائیلت اور ہندو مت مفکرین اور دسیسہ کاروں کا کار شیطانی ہے۔ کوئی بھی بدنیت شخص اگر لبادہ شخصیت، لبادہ شیخ اور لباس خطیب میں اپنی مکروہ اور شریر شخصیت کو چھپا کر امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے۔ وہ چند ایام دنیا میں ذرا پرسکون غفلت کے گزار لے گا لیکن کل قبر و حشر میں وہ ذلت کا طوق پہنے گا۔ قوم پر رحم کریں۔ قوم کی دنیا اور اپنی آخرت کو خراب نہ کریں۔