آپ اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
مذاہب کی جنگ ہو یا تہذیبوں کا تصادم، ایک دم سے اچانک نہیں ہوتا پس منظر میں ایک طویل سرد جنگ کا خاموش ماحول ہوتا ہے، اس ماحول کو قوت فراہم کرتے ہیں مذاہب کے شرپسند مفسدین کے وہ نمائندے جن کے اعصاب و قویٰ پر ابلیسی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔
علم معاشرت کی تاریخ میں جتنے بھی مفکرین نظر آتے ہیں ان کے ظن و تخمین کی پیداوار وہ عمرانی افکار ہیں جن کو سست فکر اور جدال پسند طبائع بہت جلد قبول کرلیتی ہیں۔ انسانی فلاح اور باہمی انسانی رواداری کے لئے جن عمرانی افکار کی ضرورت ہے وہ محض وحی کے علوم سے میسر آتی ہے۔ ظن و تخمین کی کھوکھ سے جنم لینے والے افکار و علوم ہمیشہ ہی بے یقینی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے قلب سلیم کے فراہم کردہ نوری افکار کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ قلوب میں روشنی کا اہتمام خدائی ہدایت اور انبیاء کرامؑ کی نگاہ نبوت کے بصیرت افروز نور کی برکت سے ہوا کرتا ہے۔
سلسلہ انبیاء اور آسمانی وحی میں ایک درست ترین نظم ہے۔ تاریخ انبیاء اور وحی کے تسلسل میں جو لوگ غورو فکر کے لئے اپنے روحانی شعور کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سلسلہ نبوت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی حیات معاش اور معاد کے جملہ تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے، اس سلسلے میں پیغام کی وسعت اور سیرت و کردار کی ہمہ گیری صرف اور صرف اسی مکمل ضابطہ حیات میں پنہاں ہے جسے اسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تنزیل کتاب اور اعلان نبوت محمدی ؐکے ساتھ ہی کائنات کی مفسد ترین قوم یہود نے خدائی ہدایت سے منظم اعلان جنگ کر دیا۔ علوم ادیان سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والے اہل علم پر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ یہودیوں نے انبیاء کرامؑ سے بغض و عناد اور ان کے قتل کو بھی روا رکھا ہے۔ ایک ملحدانہ اور منکرانہ سوچ کو مذہب و عقلیت کے نام پر فروغ دیا ہے۔ ان کے نزدیک اپنی خود ساختہ سوچ ہی ایک مذہبی حقیقت ہے۔ اپنی سوچ کے فروغ کے لئے وہ جارحانہ منفی انداز اختیار کرتے ہیں۔ خاموشی اور منافقت ان کا اہم ہتھیار ہے۔ علم و تحقیقت اور تاریخ شناسی کے نام پر وہ بین الاقوامی سطح کا اہتمام کرتے ہیں اسلام، مسلمان اور مسلمان اہل علم ان کا خاص نشانہ ہیں۔ تحقیق، تعلیم اور تدریس و تربیت کے بہت سے ادارے انہوں نے یورپی ممالک میں قائم کر رکھے ہیں۔ مسلمان طلبہ کو دیار غیر کے ماحول کی کشش اور ان کی مالی سرپرستی مجبورکرتی ہے کہ وہ اپنی دنیاوی وجاہت شہرت اور ناموری کے لئے اپنی علمی اسناد یورپ کے یہودی اور عیسائی مشرقین اہل علم سے وابستہ کریں۔
بدقسمتی سے اسلامی دنیا میں تحقیق و تعلیم کے اداروں میں بلند اسلامی اہداف سے بے نیازی کا رویہ مستقل رہتا ہے۔ مسلکی دائروں کی قید نے دین کی حقیقی روح کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اب دین خالص کا دعویٰ کرنے والے بھی اسلام کی وسعت دامانی سے بالکل بے خبر ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ اسلامی لٹریچر میں یہودیوں نے گہری سازش کے تحت اتنا رسوخ بڑھایا ہے کہ ہماری بہت سی کتب میں ایسی روایات پائی جاتی ہیں جن کا سہارا لے کر وہ امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کا دائرہ وسیع تر کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
دیگر مذاہب کے تفصیلی سلبی و ایجابی مطالعے اور ان کے افکار کے تنقیدی مشاہدے کے لئے بالغ نظر افراد پر مشتمل کوئی تربیتی حلقہ موجود نہیں ہے جبکہ یورپ میں یہودیوں کی منظم کارستانی کا مظہر وہ ادارے ہیں جہاں پر مسلمانوں کے مذہبی مدارس کی طرز پر اعلیٰ درجے کی کامیاب تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارے صاحبان نظر مذہبی سکالرز اور علماء اس تلخ حقیقت سے باخبر ہیں۔ دشمن کی تعلیم گاہوں سے فارغ التحصیل مذہب بگاڑ اہل علم اسلامی معاشرے میں پھیل چکے ہیں۔ نیم خواندہ مدعیان علم و بصیرت ان کی ستم ران کا بڑا شکار ہوتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی کا فارغ التحصیل جب کالج یونیورسٹی میں اسلامیات کا استاد بنتا ہے تو وہ بھی مبادیات دینی کی تفصیل سے تہی دامن ہوتا ہے یہ بدقسمتی کا بہت بڑا باب ہے۔ تقابل ادیان کے علوم میں محض مطالعہ ایک فن تو ضرور ہے مباحثہ، مجادلہ بھی ایک دفاعی حربہ ہے۔ لیکن قلوب میں دین کا رسوخ ملت اسلامیہ کی اولین ضرورت ہے، اگرچہ سادہ اور بے علم مسلمان اس نعمت عظمیٰ سے بہرہ ور ہے۔ لیکن اسے عوام کا لانعام کے طعنے کی زد میں لاکر مسترد کیا جاتا ہے۔ مغرب اور یہودیوں سے صحیح علمی جہاد کے لئے باطن میں قومی روحانی روشنی از حد ضروری ہے۔
گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں مغرب کے نمائندوں کی ان تصانیف پر پابندی لگا دی گئی جن کتابوں میں شیطان رشدی ملعون کی طرز کی یاوہ گوئی ذرا مختلف انداز سے کی گئی تھی اور ایک منافق جو نام نہاد مسلمان ہے۔ اس کی کتاب بھی پابندی کی فہرست میں آ گئی۔ پنجاب اسمبلی کا یہ اقدام نہایت قابل تحسین ہے اور حوصلہ افزا ہے تمام اراکین کے لئے دلی دعائیں ہیں کہ انہوں نے اپنی حد تک اپنی دینی غیرت کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے دارین عطا فرمائے اور اس دنیا میں ان کی ہمت ایمانی میں مزید قوت عطا فرمائے۔ لوگ انہیں بہت مبارکباد دے رہے ہیں۔ علماء دین بھی ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
مستقل مراحل اور مستقبل کے مراحل میں قابل توجہ حساس مرحلہ یہ ہو گا کہ علماء اور اسلامی سکالرز اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ایسی کتابوں کی نشاندہی کریں جو منافقین کی تصنیف کردہ ہیں جن کی شہرتِ علمی کی دھاک یونیورسٹی اور کالجز کے اساتذہ کے دماغوں پر مرتسم ہو چکی ہے۔ دین قلب کے تزکیے کی روشنی کو حفاظت ایمان کا اسلحہ قرار دیتا ہے۔ کسی بھی مومن کو تزکیہ ذات کے لئے لمحہ لمحہ حضور نبی کریم، خاتم النبین ﷺ کی باطنی توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ قرآن کریم میں رسول آخر الزماں ﷺ کی آئینی حیثیت کو جو دینی مرکزیت حاصل ہے اس کو شعوری علم اور روحانی زاویوں سے اعتقادی انداز میں دیکھنا ضروری ہے۔ اقبال کا یہ نظریہ نہایت درست اور رسوخ اعتقادی کا بلند مظہر ہے:
بمصطفی برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولھبی است
کچھ اکابر پرست خام علم مدعیان علم اسے خیال شاعر کہہ کر حقیقت کا منہ چڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تواتر و تسلسل سے بالغ النظری کا سہارا لے کر اساطین امت اور مصلحین ملت کے گہرے افکار کا مطالعہ کیا جائے اور پھر قرآنیات کے باب میں منصب رسالتؐ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت قلب مومن کے دروازے پر دستکِ بیداری دیتی ہے:
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے کہ میری جان ہیں یہ
عشق رسول ﷺ ایک روح پرور اور ایمان افزا قوت ہے اور ایمان کی دائمی محافظ بھی ہے۔ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب فی الفور نصابی کتابوں میں ایمانیات کے باب میں عشق رسول ﷺ کی اہمیت، سیرت طیبہ، رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کی بلندی اور ذات رسولﷺ کی تعظیم و تکریم کا اسباق کا اضافہ کروائیں اور ایسے قابل معتبر اور روحانی افراد کو نصاب سازی پر مامور فرمائیں جن کی علمی حیثیت بھی مسلم ہو۔ یہودی سازشوں کا علمی مقابلہ ایک اہم قومی معاملہ ہے اور قوم سے مراد پوری ملت اسلامیہ ہے۔ اس کے لئے ہمیں مسلکی قیود اور فرقہ وارانہ دھڑے بندی سے آزاد ہو کر کام کرنا ہو گا۔