ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
ایک پرانی خبر پر، سوشل میڈیا بریگیڈ، نے ایسا واویلا کیا کہ شہر لاہور کا ہنگامہ مختلف شہروں میں پہنچ گیا لوگوں کو اعتراض ہے کہ خبر پرانی تھی جواب ملا خبر نئی پرانی نہیں ہوتی، جب حقائق، سوشل میڈیا، نے قوم کے سامنے رکھے تو تہلکہ مچ گیا کیونکہ ایک معصوم طالبہ کے ساتھ جنسی ھراسگی ہوئی، کچھ نے کہا مبینہ طلبہ کو نجی ادارے نے کسی نجی ہسپتال کے آ ئی۔ سی۔ یو میں شفٹ کرا کے اپنے ملازم گارڈ کو بچا لیا لیکن اس درندگی کا شکار بچی موت و حیات کی کشمکش میں چند روز گزارنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئی۔
معصوم کا خون ہوا اور لوگ تماشائی بن کر خاموش رہے، بقول شخصے ظلم کی شکار ہونے والی بچی کے والدین کو بھی دھمکیاں دے کر چپ کرا دیا گیا جبکہ ایس۔ پی شہربانو نے بچی کے والد اور چچا کو میڈیا کے روبرو بھی پیش کر دیا، دونوں نے اعتراف بھی کیا کہ واقعہ 10 اکتوبر کا ہے اور ہماری بچی دو اکتوبر سے کالج ہی نہیں گئی کیونکہ گھر کی سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اور کئی روز ہسپتال میں زیر علاج رہی، اس کی کمر اور ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹ لگی ہے والدہ کہتی ہیں میں پانچ بچیوں کی ماں ہوں، ہمارے ساتھ حادثہ ہوا ہی نہیں تو میں بدنامی کے لیے کیوں سامنے آ ؤں لیکن اچانک ہنگامے پھوٹ جاتے ہیں طلبہ سڑکوں پر آ جاتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔
پولیس اپنا روایتی انداز اپناتے ہوئے لاٹھی چارج کرتی ہے اور پھر لاہور کی سڑکیں میدان جنگ بن جاتی ہیں لاٹھی چارج کے بعد، آ نسو گیس، کی شیلنگ بھی ہوتی ہے اور ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے پہلے وزیر تعلیم، پھر وزیر اطلاعات اور یہی نہیں وزیراعلی پنجاب مریم نواز بھی حالات کو معمول پر لانے کی کوشش میں میڈیا سے اپیل کرتی ہیں کہ اس طلسماتی افسوسناک حادثے کے ثبوت جس کے پاس بھی ہیں وہ حکومتی اداروں کو دیں۔
سخت کاروائی کرکے ملزم یا ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا کیونکہ تعلیمی ادارہ، سی۔ سی فوٹیج اور کسی کی جانب سے بھی شہر لاہور نہیں پورے صوبے میں کوئی ایف۔ آ ئی۔ آ ر درج نہیں کرائی گئی حکومتی دعوی ہے کہ یہ فیک نیوز، جادوگروں کا کارنامہ ہے جسے، سوشل بریگیڈ، نے حکومت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا لیکن جس نے بھی یہ کام دکھایا احتجاجی سیاست کو ہوا خوب ملی اور چنگاری دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آ گ کا روپ دھار گئی۔
حکومت پنجاب نے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی بنائی ایف۔ آ ئی۔ اے سائبر کرائم کے حوالے سے بھی خصوصی کمیٹی ترتیب دی گئی بلکہ اب تو جے۔ آ ئی۔ ٹی بھی تشکیل پا چکی ہے اور ابتدائی تحقیقات سے ادارے بات سے بتنگڑ بنانے والے کردار تک بھی پہنچ گئے ھیں سینکڑوں گرفتاریاں اور درجنوں زخمی، توڑ پھوڑ املاک کا نقصان بھی ہوا پھر بھی حادثے کی نہ کوئی ایف۔ آ ئی۔ آ ر درج کرائی گئی نہ ہی کوئی واردات کا گھائل سامنے آ یا لیکن ہنگامہ آ رائی جاری اور بڑے بڑے صاحب رائے بقراط اور سقراط دعوی دار ہیں کہ حکومت ایک بااثر شخص اور اس کے ادارے کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے اسی لیے کوئی ان پر اعتبار نہیں کر رہا حالانکہ پرانی کہاوت ہے کہ کوا کان لے گیا اور لوگ کوے کے پیچھے دوڑ پڑے، کان چیک کرنے کی زحمت کوئی نہیں کر رہا اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے سوال یہ ہے کہ جب واقعہ ہوا ہی نہیں تو پھر ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
جواب سیدھا سادہ ہے یہ سب کرشمہ سازی ہے موجودہ دور کے "سوشل بریگیڈ" کی حکومت کو ایک فیک نیوز سے ہلا کر رکھ دیا، روک سکو، تو روک لو، تبدیلی آ چکی ہے ہنگامہ لاہور سے جی۔ ٹی روڈ کے ذریعے راولپنڈی اور اسلام آ باد کا رخ کر چکا ہے حکومت نے معصوم طالب علموں اور ان کے والدین کو اس اذیت ناک صورتحال سے بچانے کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ پنجاب اور اسلام آ باد میں کرکے دو روزہ چھٹی کے اعلان سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن حقیقت میں اس مصنوعی سہولت سے مثبت نتیجہ نہیں نکل سکے گا کیونکہ کچھ لوگ تو اس طلبہ تحریک اور ہنگامہ آ رائی سے، بنگلہ دیشی انقلاب، کی امید وابستہ کر بیٹھے ہیں وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ ہم سے زیادہ یہ حکمران جانتے ہیں، پھر بھی ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
ریاست مشکل حالات سے گزر رہی ہے معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام روزانہ کی بنیاد پر تماشہ دکھا رہا ہے پھر بھی اتحادی حکومت اپنی معرکہ آ رائی میں سخت فیصلوں سے پاکستان کو نہ صرف ڈیفالٹ سے بچانے میں کامیاب ہوئی بلکہ شنگھائی کانفرنس کے کامیاب انعقاد نے پاکستان کا پیغام دنیا کو دے دیا کہ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان نہ کبھی تنہا تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے لیکن مہنگائی، احتجاج اور دہشت گردی کی لہر نے عوامی سکون غارت کر رکھا ہے، رہی سہی کسر، سوشل میڈیا، نے پوری کر دی ایسے میں سب اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہم قدم ہیں سپہ سالار نے بھی بتا دیا کہ صرف ایک ایجنڈا پاکستان، خوشحال پاکستان، کامیاب پاکستان، اسٹاک ایکسچینج بلندی پر، دوست ممالک ہم رکاب، کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کو تیار ہیں پھر بھی کسی کو یقین نہیں کہ حکومت سچ بول رہی ہے جمہوریت اور جمہوری اقدام اپنی جگہ، پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم، الیکشن کمیشن آ زادی سے اپنے پاؤں پر کھڑا، قانون سازی اور ترامیم کے لیے بھی سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر، مشاورت سے آ گے بڑھنے کا جذبہ بھی موجود، پھر ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر جمہوریت کے دعوی دار دھونس، دھاندلی اور ہارس ٹریڈ نگ میں پھنس گئے ہیں تو، سوشل بریگیڈ، انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا، حکومتی ایوان میں بیٹھے منتخب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جو ماضی کے حکمرانوں سے، گڈ گورننس، چاہتے تھے اپنے دور اقتدار میں قائم کرکے دکھائیں، فیک نیوز اور افواہ ساز فیکٹریوں کی، مشکیں، باندھیں اور ذمہ داروں کو بے نقاب کریں صرف الزامات سے بات نہیں چلے گی بنگلہ دیش کی قاتل حسینہ واجد بھی طلبہ تحریک کو دہشت گرد قرار دیتی تھی ہم نے بھی وہی بیان اپنا لیا نادان دوستوں نے دو ممالک اور حکمرانی کے انداز کا موازنہ بالکل نہیں کیا حالانکہ، سوشل بریگیڈ، ہر سلپ کے کیچ کے لیے تیار ہے وہ حکمرانوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے لیکن پرانے طریقہ علاج پر دو گولی سے اضافہ چاہتے ہیں جو ناکام سوچ ہے۔
جدید دور میں تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا عاقبت نااندیشوں اور نادان وفاداروں کے مشوروں کی بجائے ہر شعبہ زندگی کے لیے، تھنگ ٹینک، بنانے ہوں گے جن میں تجربے کار اور اہم ریٹائرڈ اعلی عہدے داروں کے معاونت شامل ہو، ہر کام میں سیاست اور سیاسی ورکر سے معاملہ آ سان ہرگز نہیں ہوگا، سوشل بریگیڈ کے دھماکے نے جس انداز میں نئی ہلچل کو جنم دیاھے اسے لمحہ فکر سمجھتے ہوئے مستقبل کے لیے کچھ ایسا نیا کرنا ہوگا کہ عوام مطمئن ہوں ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا کہ حقیقی مجرموں کو منظر عام پر لایا جائے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے ورنہ معیشت کا پہیہ جسے دھکا لگا کر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ نہیں چلے گا، کاروبار زندگی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بد امنی کا خاتمہ کرنے کے لیے دہشت گردوں، ڈیجیٹل دہشت گردی کا صفایا کرنا ہوگا ورنہ امن کی فاختہ اڑ گئی تو پھر نہ کاروبار بچے گا نہ زندگی خواہشیں حسرت بن کے دل میں دم توڑ دیں گی اور ہم پوچھتے رہ جائیں گے، ہنگامہ ہے کیوں برپا؟