وہ پاکستان کا آدمی ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے بارہ کہو بائی پاس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، مجھے طعنہ دیا جاتا ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے، فلاں ہے، ان باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتاکیونکہ اگر میں نے ذاتی مفادات لینے ہوتے تو تب تو بات تھی، مقصد صرف ایک تھا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ مل کر ملک کو آگے لے کر جائیں۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کیونکہ یہ بات پبلک ہوچکی ہے، میں اس لیے اس کی مثال دے رہا ہوں ورنہ ایسے راز میری قبر تک جائیں گے۔ شہباز شریف نے کہا، سیاست کے دشت میں 38 سال ہوگئے، میں بڑے بڑے قد آور سپہ سالاروں سے ملا، ان ملاقاتوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ سیاست دان اور ادارے مل کر ملک کو وہاں لے جائیں جہاں اس کی تخلیق کے لیے قربانیاں دینے والے لاکھوں لوگوں کی روح کو تسکین پہنچے، ملک کو عظیم بنا کر غربت و بیروزگاری کا خاتمہ کریں۔ ربع صدی یا اس سے بھی کچھ زائد کی شہباز شریف کی سیاست کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا مجھے موقع ملا، میں اس سیاست کے بارے بہت کچھ جانتا ہوں۔
یہ ایک درد دل رکھنے والے ان تھک شخص کی سیاست کا عملی فلسفہ ہے جسے زمینی حقائق سے دور بہت سارے برا ئلر دانشور اور تجزیہ کار نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی سمجھا سکتے ہیں۔ یہ بڑھکیں مارنے کی سیاست نہیں ہے، یہ کام کرنے کی سیاست ہے۔ شہباز شریف کا سیاسی فلسفہ پنجاب کی تعمیر و ترقی کی صورت جگہ جگہ بکھرا ہوا ہے۔ وہ مزاحمت اور لڑائی والا آدمی ہی نہیں ہے جیسے قائداعظم محمد علی جناح مزاحمت اور لڑائی والے نہیں تھے۔ وہ بدترین حالات میں بھی اپنے خاندان سے ملک کے عوام تک کے لئے راستہ نکالنے والی قیادت ہے جیسے بابائے قوم انگریز کے دور میں ایک مرتبہ بھی جیل نہیں گئے مگر انہوں نے دنیا کی تاریخ میں مدینہ منورہ کے بعد کلمہ طیبہ کے نام پر دوسری اسلامی نظریاتی ریاست قائم کرکے دکھا دی تھی۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں پرویز مشرف کا دور یاد کروا دیا جب یہ کہا جاتا تھا کہ شہباز شریف کی پرویز مشرف سے دوستی ہے۔ سینئر اور معتبر ترین صحافی سلمان غنی اور پرویز بشیر کو ماڈل ٹاون کے گھر میں ہونے والی وہ ملاقات یاد ہوگی جس میں ہم تینوں ہمہ تن گوش تھے۔ اس وقت ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط سامنے آیا تھا جس میں شہباز شریف نے مشورہ دیا تھا کہ دیوار کو ٹکر نہ ماری جائے اور جواب یہ ملا تھا کہ شہباز شریف یہ مشورے اپنے دوست پرویز مشرف کو دیں۔ میں روزنامہ دن، کا چیف رپورٹر تھا، سلمان غنی نوائے وقت، کے اور پرویز بشیر جنگ، کے۔
ہم نے باہر نکل کے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کیا یہ بات آف دی ریکارڈ قرار دی گئی ہے اور اتفاق رائے ہوا کہ نہیں۔ ہم تینوں نے اپنے اپنے اخبارات میں یہ بات شائع کر دی تھی جس سے طوفان برپا ہوگیا تھا۔ یہ بات یاد کروانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہباز شریف کو غیر ہی نہیں بلکہ اپنے بھی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھتے تھے مگر پھر وہی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہر جگہ کام آیا۔ جب بھی جیلوں کے دروازے کھلے تو شہباز شریف کی وجہ سے ہی کھلے۔ پچاس روپے کا اشٹام چلا تو شہباز شریف کا ہی چلا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے بینش سلیم اور منصور علی خان جیسے مشہور ناموں کے ساتھ ہم شہباز شریف کے گپ شپ کر رہے تھے۔ گپ شپ آف دی ریکارڈ تھی اور اسی میں ان سے پوچھ لیا گیا کہ راولپنڈی سے آپ کو کیا ملا، کیا کوئی
ٹھنڈی ہوا آئی۔ آج شہباز شریف نے جو جواب بارہ کہو کے جلسے میں دیا ہے وہی جواب انہوں نے بندکمرے میں دیا تھا کہ انہوں نے کبھی کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جب نواز شریف جیل پہنچے تو وہ بھی جیل پہنچے، جب نواز شریف او ر ان کی فیملی جلاوطن ہوئے تو اس وقت وہ خود اور ان کی فیملی بھی جلاوطن ہوئے بلکہ حمزہ شہباز شریف کو تو ضمانت کے طور پر آمر نے یہیں رکھ لیا۔
شہباز شریف درست کہتے ہیں کہ ان کے سیاسی نظرئیے کا مطمع نظر کبھی ذاتی مفاد اور اقتدار نہیں رہا۔ اب تو یہ گواہی محترم حامدمیر سمیت سب دیتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ، نواز شریف کو نکال کے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے مگر انہوں نے اپنے بھائی سے غداری کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ نواز شریف کتنے خوش قسمت آدمی ہیں کہ یہاں تو پیغمبروں کو ایسے بھائی نہیں ملتے۔ ویسے بھائی جوبھائی کنویں میں ڈال کے چلے جاتے ہیں مگر یہ چھوٹا بھائی ایسا ہے کہ ہر مرتبہ کنویں سے نکال لیتا ہے۔
مجھے شہباز شریف کی بات سن کر دو برس پہلے والا سوشل میڈیا یاد آ گیا جب ایک مکتبہ فکر نواز لیگ کو مارو اورمرجاؤ کے مشورے دے رہا تھا، وہاں کوئی چھوٹی چڑیا تھی اور کوئی موٹی چڑیا۔ یہ سب چڑیائیں دن رات مریم نواز کی تعریفیں کرتی اور شہباز شریف پر حملے کرتی تھیں۔ یہ چڑیائیں شہباز شریف کو اپنے خاندان سے توڑنے کی سازش کی کردار تھیں۔ میں نے تب بھی کہا تھا کہ شہباز شریف نہ اپنے خاندان کا غدار ہے اور نہ ہی اپنے ملک کا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب پرویز مشرف انہیں جلاوطن کرنا چاہ رہا تھا تو شہباز شریف جانے کے لئے تیار نہیں تھے اور یہ ان کی وطن سے محبت تھی اور جب وہ جانے کے لئے بادل نخواستہ تیار ہوئے تو یہ ان کی بھائی سے محبت اور والد سے اطاعت تھی۔ میں یہ گواہی بلاخوف تردید دے سکتا ہوں کہ شہباز شریف نے اپنی حکمت، فراست اور سیاست سے بہت ساروں کی بولتی بند کردی ہے اور یہ ان کی سب سے بڑی سیاسی اہلیت ہے کہ وہ لوگ جو اگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت اور صدارتی نظام کے ذریعے سوفیصد قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے ان کے بارے یہی علم نہیں کہ وہ کل تک اپنے گھر میں بھی اپنی حکومت رکھ سکیں گے یا نہیں۔
میں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو قریب سے دیکھا بھی ہے اور بھگتا بھی ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں فوج دشمنی کی سیاست چل ہی نہیں سکتی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون جیسی جماعتوں نے بھی یہ سبق سیکھ لیا ہے۔ میرا تھیسز ہے کہ عمران خان بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کرنا چاہتا مگر اس کی نااہلی او رکرپشن نے اس کو راندہ درگاہ کر دیا ہے اور اب اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
میں جب شہباز شریف کے حوالے سے کہہ سکتا ہوں کہ چھوٹی موٹی چڑیائیں جو مرضی کہتی رہیں اور جہاں سے مرضی دانہ دنکا چگتی رہیں، اسے اسٹیبلشمنٹ کا آدمی کہنے سے اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے نظرئیے اور کام میں کسی کنفیوژن کا شکار نہیں ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کا آدمی ہے۔ وہ اس غریب کا آدمی ہے جس کے بچوں کو وہ لیپ ٹاپ دیتا ہے، جسے وہ اخوت کے ساتھ مل کر اربوں، کھربوں کے قرضے دیتا ہے، وہ دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے والا آدمی ہے اور وہ ایسا آدمی نہیں جو اپنی توانائیاں اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے میں ضائع کرتا رہے۔