صدر علوی کیا کر رہے ہیں؟
سوال ہے، صدر علوی کیا کر رہے ہیں اور جواب ہے، وہی کر رہے ہیں جو اس وقت پوری قوم کر رہی ہے یعنی اپنے عہدے اور مقام کا ناجائز استعمال۔ میں اس صورتحال کو دیکھتا ہوں تو دل تھام لیتا ہوں کہ کرپشن نیچے تک آ گئی ہے۔ یہ وہ مچھلی ہے جس نے کبھی سر سے سڑنا شروع کیا تھا اور اب اس کی دم تک گل سڑ چکی ہے۔ آپ میرے ساتھ کسی ٹریفک سگنل پر کھڑے ہوجائیں وہاں ریڈ سگنل کی خلاف ورزی کرنے والے دس میں سے نو موٹر سائیکل سوار، رکشوں، ویگنوں اورٹرکوں والے ہوں گے۔
میں نے لاہور کینٹ کے ایریا کے معروف بازار میں کھڑی ایک ریڑھی سے جاتے موسم کے آم خریدے۔ پھل والے نے جو ریٹ بتایا میں نے وہی دیا اور میرا خیال تھا کہ ایک غریب آدمی کو مناسب منافع ضرور ملنا چاہئے۔ میں گھر جا کے اس کا بہت سارے دعووں اور حکمرانوں کی برائیوں کے ساتھ بنایا ہوا شاپنگ بیگ الٹایا تو اوپر کے چند آموں کے سوا نیچے کم وبیش سارے کے سارے ہی چھوٹے بڑے داغ کے ساتھ تھے۔ یہی حال ہمارا سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیں ملک بھر میں بہترین امیدوار دے رہی ہیں، ہاں، سارے برے نہیں ہوتے مگر پھر یوں ہوتا ہے کہ نیچے سے سارے دانے خراب نکلتے ہیں۔
ہم جب بھی مائیک اور کیمرہ لے کر ان غریبوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ صادق اور امین حکمران مانگتے ہیں۔ ان میں وہ پولیس والے بھی ہوتے ہیں جو ہر کام رشوت لے کر کرتے ہیں اور ان میں وہ لیسکو والے بھی جو میرے ابھی کل پرسوں کے تجربے کے مطابق رشوت بھی لیتے ہیں اور پھر کام بھی سفارش سے کرتے ہیں۔ میں روزانہ رات کو اخبار بنانے بیٹھتا ہوں تو ایک جیسی ہی خبریں ہوتی ہیں کہ فلاں جگہ اور فلاں محکمے میں اتنے ارب کرپشن ہوگئی اور دوسری جگہ اور دوسرے محکمہ میں اتنے ارب کی۔
میں پوری طرح یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی شہر اور گاؤں میں کسی ایس ایچ او کی مرضی کے بغیر جرم کا اڈہ نہیں کھل سکتا اور کسی لیسکو اہلکار کی مرضی کے بغیر بجلی چوری نہیں ہوسکتی۔ آپ اسی فارمولے کو گیس اور پانی کے محکموں پر بھی لگا سکتے ہیں۔ میری اس لمبی تمہید کا حاصل یہ ہے کہ جب ہم سب کرپٹ ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ہمیں ایسے ہی وزیراعظم اور ایسے ہی صدر ملتے ہیں، ایسے ہی بیوروکریٹ اور جج ملتے ہیں، ایسے ہی صحافی اور دانشور ملتے ہیں سو مجھے صدر علوی جو کچھ کر رہے ہیں اس پر ہرگز حیرانی نہیں ہوتی۔
مجھے کچھ دوستوں نے ایک روز پہلے بتایا کہ صدر عارف علوی انتخابات کی تاریخ دینے والے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ انتخابات آئین کے تحت مقررہ مدت کے اندر ہی ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک غلط مثال پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کو ملتوی کرکے قائم کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کا التوا برائی کی بنیاد ہے یا انتہا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ بدنیتی اور برائی کی انتہا ہے۔ اس کی ابتدا وہ تھی جب ان دو صوبوں کی اسمبلیاں صرف اس لئے توڑی گئی تھیں تاکہ ملک میں ایک بحران پیدا ہوسکے ورنہ ان اسمبلیوں کے توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی بھی رتی برابر ضرورت نہ تھی۔ پہلے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے دیکھ کر اسمبلی توڑی جو سراسر غیر آئینی حرکت تھی اور اس پر اسی صدر نے فوری طور پر اسمبلی کے ٹوٹنے کا حکمنامہ بھی جاری کردیا۔ اس موقعے پر صدر علوی نے صدر کی بجائے ایک یوتھیے کا کردار ادا کیا اور وہ یہ کردار مسلسل ادا کرتے رہے جیسے انہوں نے ایوان صدر کے مقام اور وقار کو سبوتاژ کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف کو مجبور کیا کہ وہاں ان کی پارٹی کے سربراہ سے ملاقات کرے اور ان کے دوبارہ اقتدار کی راہ ہموار کرے۔
صدر مملکت نے کچھ دن پہلے بھی ایک غیر اخلاقی اور غیر سیاسی حرکت کی کہ اپنے ذاتی ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ کر دیا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے ترامیمی قوانین پر دستخط نہیں کئے۔ انہوں نے اپنے عملے بالخصوص سیکرٹری پر بددیانتی کے الزامات عائد کئے مگر جب سیکرٹری نے خم ٹھونک کر اپنے پروفیشنلزم کا دفاع کیا تو جواب تک نہ دے سکے۔ فوج سے متعلق دونوں قوانین پر دندان ساز صدر کا ٹوئیٹ اسی سازش کا تسلسل تھا جس کے تحت منصوبہ بندی کرتے ہوئے نو مئی کوپاک فوج پر حملے کئے اور کروائے گئے، یہ اپنے ہی ملک کی فوج پر ایک اور حملہ تھا۔
اب اطلاعات ہیں کہ صدر علوی، ملک میں عام انتخابات کی تاریخ دینے کے لئے صلاح و مشورے کررہے ہیں حالانکہ ان کو الیکشن کمیشن، وزارت قانون، اپنی لیگل ٹیم کے ساتھ آزاد ماہرین قانون بھی بتا چکے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے ان کے پاس اب کوئی اختیار نہیں رہا اور دوسرے نو ستمبر کی رات جب ان کے عہدے کی مدت پوری ہوگئی توا ب وہ اس عہدے پر عبوری طور پر فائز ہیں۔ ایک ماہر قانون نے مجھے کہا کہ آئین ایک دستوری مدت والے صدر اور عبوری صدر کے اختیارات کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا تو میرا اس پر سوال تھا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر انہوں نے نو ستمبر سے پہلے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی۔
میں نے انہیں بتایا کہ صدر علوی سوائے آئینی، قانونی اور سیاسی میدانوں میں گند پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس وقت جب ملک بھر میں چوروں، سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں سمیت کرپٹ مافیاز کے خلاف آپریشن ہو رہے ہیں وہ توجہ دوسری طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ انہیں جہاں سے ہدایات ملتی ہیں وہاں یہ بات قابل قبول ہی نہیں ہے کہ ڈالر دوبارہ نیچے جانا شروع ہوجائے۔ دروغ بہ گردن راوی، کہا جا رہا ہے کہ صدر علوی نے بھی اپنے لیڈر کی طرح توشہ خانہ کے تحائف کا کوئی ریکارڈ نہیں دیا اور امکان ہے کہ عہدے سے ملی پروٹیکشن کے ختم ہوتے ہی ان سے سوال و جواب نہ ہونے لگیں تو انہوں نے پہلے ہی تیاریاں شروع کر لی ہیں کہ ان سے پوچھا جانے والا ہر سوال سیاسی انتقام قرار دیا جاسکے۔
کراچی کے دندان ساز کوعلم ہے کہ انہیں کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت ساتھ لینے کوتیار نہیں ہوگی لہٰذا وہ اپنا مستقبل بشریٰ بی بی کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ وہ ان کی طرف سے آنے والی ہر ہدایت پر اسی طرح عمل کر رہے ہیں جس طرح بی بی کے شوہر کرتے تھے کہ انہوں نے کس وقت دودھ پینا ہے اور کس وقت نہیں پینا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کراچی کے دندان ساز اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد کراچی جا کے اپنی دکان دوبارہ کھول لیتے مگر انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے وہ سیاسی انتشار میں اضافہ کریں گے، معیشت کے استحکام کو روکیں گے اور اس کے لئے ایوان صدر کا استعمال کر یں گے مگر کیا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے تو میرا واضح اور دوٹوک جواب ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکیں گے، ناکام رہیں گے۔