سب سے مشکل وزارت
پہلے بجلی مہنگی ہوئی اوراس کے بعد پٹرول، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر یوں ہاہا کار مچی کہ الامان۔ دلچسپ ہے، عمران خان نے اقتدار سے جانے سے دس دن پہلے پٹرول بیس روپے سستا کر دیا تھا مگر اسحق ڈار نے حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے دس دن پہلے پٹرول بیس روپے مہنگا کر دیا ہے۔
میں نے دوستوں سے پوچھا، کیا خانصاحب اپنی کمائی سے عوام کو سستا پٹرول دے رہے تھے اور کیاشہباز شریف پٹرول مہنگاکرنے کے بعد اس کے پیسے بوری میں ڈال کر گھر لے جائیں گے۔ میں نے کہا، یقین کیجئے یہ پاگل نہیں ہیں اور نہ ہی سخت عوامی ردعمل سے ناواقف۔ کیا کوئی سوچے گا کہ کائیاں اور تجربے کار سیاستدانوں کا حکومتی اتحاد ایسے فیصلے کیوں کر رہا ہے کہ اکانومی بچ جائے اور وہ خود نہ بچیں؟
میں نے دوستوں سے پوچھا کہ ایسے میں سب سے مشکل وزار ت کون سی ہے، جواب ملا اسحق ڈار کی۔ میر اجواب تھا، یہ درست ہے کہ انہیں بڑے اور سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں مگر انہیں براہ راست عوامی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ سخت عوامی ردعمل اس وقت انتہائی زہریلا ہوجاتا ہے جب اس میں پی ٹی آئی کے پیڈاور ان پیڈ ٹرولز کا تڑکا لگتا ہے۔ اس زہریلے ردعمل کا مقابلہ کرنے کی ذمے داری وزارت اطلاعات و نشریات کی ہے جس کی سربراہی ایک دھان پان سی لڑکی کر رہی ہے۔ اس نے نہ فواد چوہدری کی طرح گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے بلکہ نسل در نسل نظریاتی اور سیاسی وفاداری نبھا رہی ہے او رنہ ہی اس کے لہجے میں شہباز گل جیسا سستا اور عامیانہ پن ہے۔
میں تو اکثر سوچتا تھا کہ آپ، جناب کے ساتھ آپ پی ٹی آئی کے ٹائیگرز کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں، جی ہاں وہی ٹائیگرز جن کا مطلب شیر ہونا نہیں بلکہ خانصاحب کے ڈرائنگ روم میں لیٹا ہوا وہ جانور ہے جس کی تعظیم و تکریم ہر پی ٹی آئی رہنما پر فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ میں مریم اورنگ زیب کے تحمل اور تدبر کااس وقت حقیقی معنوں میں قائل ہوا جب اس مہذب خاتون کو بیرون ملک ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ ایک پاکستانی یوتھئے سے زیادہ زہریلی کون سی چیز ہے، میں نے کہا، بیرون ملک مقیم یوتھیا، چاہے وہ لندن ہو یا مدینے۔
پی ٹی آئی کی مہارت کام کرنا نہیں تھی، کام دکھانا ضرور تھی اور اس کام دکھانے کے لئے انہوں نے اگر کسی شعبے میں کام کیا تو وہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا تھا۔ ان کے تراشے ہوئے جھوٹ بہت خوشنما ہوتے تھے۔ میں قائل ہوں کہ اگر اس دور میں گوئبلز آجاتا تو وہ عمران خان سمیت اس پورے گروہ کو اپنا گرو مان لیتا۔ سچ اور جھوٹ کا المیہ یہ ہے کہ سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے اور جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کے واپس آ چکا ہوتا ہے سو ایسے میں وزارت اطلاعات ونشریات چلانا ایک بڑا چیلنج تھا۔
مجھے بتانے میں عار نہیں کہ میرا سابق دور سے مریم اورنگ زیب سے اچھا تعلق نہیں رہا خاص طور پر جب میں نے پی ٹی وی پر پروگرام کئے۔ مجھ سے پہلے اینکر کو ہزاروں روپے ملتے تھے اور جب میں سردیوں کی راتوں سمیت کئی ماہ رات گیارہ بجے جا کے پروگرام کرتا رہا تو میرے چیک پانچ، سات سو روپے کے بنے۔ یہ زیادتی میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ روف طاہر، عطاالرحمان، وجاہت مسعود، گل نوخیز اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ بھی ہوئی اور اس پر مریم نواز سے مریم اورنگزیب تک کسی نے بھی بات تک نہ سنی، بہرحال، یہ ذاتی ایشو ہے اور میں نے ہمیشہ ذاتی ایشوز کو قومی مسائل پراپنی رائے پر حاوی نہیں آنے دیا۔ مجھے یہاں اپنے ادارے روزنامہ نئی بات، کے سرکاری اشتہارات کے حوالے سے بھی بات نہیں کرنی اور اب رخصت ہوتی حکومت سے اس شکوے کا کوئی فائدہ بھی نہیں، سو جانے دیجئے۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ مریم اورنگزیب کے پاس سے مشکل وزارت تھی تواس کا مطلب یہ ہے کہ میں پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہا ہوں۔ مریم اورنگزیب کی وزارت اس لئے بھی زیادہ مشکل ہوگئی جب اتحادی حکومت کو پے در پے مشکل معاشی فیصلے کرنے پڑے مگراس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ توتڑاک کے جواب میں آپ، جناب والی مکمل مہذب گفتگو کے ساتھ بیانیے اور سازش کا مقابلہ کیا جاتا رہا۔
اس وزارت کو صرف پی ٹی آئی کا سامنا نہیں تھا بلکہ تمام اتحادیوں کو بھی کوریج کے حوالے سے مطمئن رکھنا تھا۔ اس کے سامنے جارحانہ رویہ رکھنے والا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی تھا۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب میں نے پیمرا کا نیا قانون دیکھا۔ اس قانون میں جہاں فیک نیوز کی ڈیفی نیشن کو واضح کیا گیا ہے وہاں ورکنگ جرنلسٹس کی تنخواہوں کی ادائیگی سے سرکاری اشتہارات کو جوڑ دیا گیا ہے۔
میں ایک کارکن صحافی ہونے کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ یہ مالکان کو کس حد تک ناراض کردینے والا فیصلہ ہے جس کی ماضی میں کبھی جرات نہیں ہوئی۔ یہی وہ پندرہ ماہ ہیں جب پی ٹی وی نے تاریخ کا سب سے بڑا ریونیو کمایا اور جہاں پی ٹی وی کو پی ٹی وی فلکس کے نام سے موبائل فون پر لایا گیا وہاں ریڈیو پاکستان کی نشریات کو باون ملکوں تک پہنچایا گیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی سکرین کے ذریعے ہی پاکستان کا مثبت امیج پیش کر سکتے ہیں جیسے انڈیا نے اس فیلڈ میں بہت کام کیا ہے۔
وہ اپنی فلم انڈسٹری سے دنیا بھر کے لوگوں کے ذہن جیتتا ہے۔ اس دور میں سکرین ٹورازم کو اہمیت دی گئی۔ اس سے پہلے فلم پالیسی بھی مریم اورنگزیب کی وزارت نے ہی دی تھی جس میں فلم کی آمدن پر ہی نہیں بلکہ فلم میکنگ، آلات کی درآمداو ر سینما پروڈکشن تک پر ٹیکس کو زیرو کر دیا گیا تھا۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم بھی دیگر مسلم ممالک سعودی عرب، ترکی، ا یران اور قطر کی طرح اپنی فلم انڈسٹری کوآگے لے جاسکتے ہیں۔
میں جس وقت یہ تحریر لکھ رہاہوں میرے سامنے ٹی وی چینلوں پر مریم اورنگزیب کی طرف سے پٹرول کی قیمتوں کے اضافے میں دفاع پر ٹیکرز چل رہے ہیں اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ فیصلہ اتنا مشکل نہیں جتنا مشکل اس کا دفاع ہے۔ مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں کہ حکومت نے اپنے مفاد اور سیاست کو نہیں معیشت اور ریاست کوبچایا ہے۔ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ غریب مار اگیا ہے اور یہ سوال سو فیصد درست ہے کہ اگر معیشت اور ریاست نہ بچتی تو کیاغریب بچ جاتا۔
ایسے میں سب سے مشکل کام لوگوں کو یہی بتانا ہے کہ اگر یہ ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو پونے تین سو روپے لیٹر والا پٹرول آپ کو پونے تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ مل رہا ہوتا۔ اس وقت اگر بجلی دو گھنٹے جا رہی ہے تو پھر یہ بجلی صرف دو گھنٹے آ رہی ہوتی۔ ملک بھر میں دفاتر اور کارخانے بند ہوچکے ہوتے۔
بھوکے عوام جتھوں کی صورت میں کھاتے پیتے لوگوں کے گھروں پر حملے کر رہے ہوتے۔ شہباز شریف نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا کے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے مگر اس وقت سب سے مشکل کام عوام کو یہی بات سمجھانا ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ایک مریم اورنگزیب سب سے مشکل وزارت چلا رہی ہیں۔