Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Sab Se Corrupt Kon?

Sab Se Corrupt Kon?

سب سے کرپٹ کون؟

گوالے نے دودھ میں پانی ملاتے ہوئے، کریانے والے نے مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملاتے ہوئے، پٹرول پمپ والے نے جعلی پٹرول ڈالتے ہوئے، پھل والے نے منہ مانگی قیمت لے کر گلے سڑے پھلوں کا شاپنگ بیگ بدلتے ہوئے، رکشے والے نے مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوگنے پیسے لیتے ہوئے، کلرک نے رشوت لیتے ہوئے، پلمبر الیکٹریشن ویلڈر نے ہر قسم کی دو نمبری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایماندار حکمران چاہیے جو ہر کرپٹ کو پھانسی پر لٹکا دے اور یہی بات کرپٹ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے کہی جنہوں نے اپنی اسسٹنٹ بچیوں کو تک نہیں چھوڑا، ان کی گندی گالیوں کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں اور ان سے جنسی روابط اور جنسی کے سکینڈل بھی، انہیں ایک ایماندار اور باکردار حکمران چاہیے تھا جو اس ملک کو ریاست مدینہ بنا دے۔

میں نے پوچھا، سب سے کرپٹ، سست، فرعون اور عوام دشمن محکمہ کون سا ہے؟ پولیس، عدالتیں، بورڈ آف ریونیو، لیسکو، واسا، صحت، تعلیم، خوراک، آبپاشی، خزانہ، بلدیات یا کارپوریشن؟ میرا جواب تھا کہ جس سے بھی آپ کا واسطہ پڑ جائے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس اپنی اپنی کرپشن کے جواز اور دلائل موجود ہیں۔ ایک صاحب اینٹی کرپشن میں اچھے خاصے عہدے پر تھے۔

میں نے ان سے پوچھا آپ رشوت کیوں لیتے ہیں۔ وہ ہنسے اور بولے۔ میں نہیں لوں گا تو مجھ سے آگے والا، اوپر والا لے لے گا تو پھر میں ہی کیوں نہ لے لوں۔ پولیس کی کرپشن تو سب کے سامنے ہی ہے۔ میں وزیر اعلیٰ کی سفارش کے ساتھ ایک جائز کام کے لیے پولیس کے پاس گیا۔ متعلقہ پولیس اہلکار نے کہا کہ آپ سے تو ہم فیس نہیں لے سکتے مگر جن کے خلاف آپ نے شکایت کی ہے ان سے کہیں کہ ہماری فیس ادا کریں۔ میں نے جواب دیا کہ میں یہ کیوں کہوں تو جواب ملا کہ چلیں ان کو ریلیف چاہیے تو فیس تو انہیں دینا ہوگی۔ عدالتوں کی بات کر لیجئے۔ ماتحت عدالتوں میں تو ایک ایک اینٹ رشوت مانگتی ہے لیکن اپیلٹ کورٹس میں تو وکیلوں نے باقاعدہ طور پر ڈن بیسز، کا فارمولہ متعارف کرا دیا ہے، معذرت، اپیلٹ کورٹس کا ذکر کرنے سے یہ مت سمجھئے گا کہ انصاف کی یقینی فراہمی کا یہ فارمولہ ماتحت عدالتوں میں نہیں ہے۔ ڈن بیس پر وکیل جو پیسے لیتا ہے اس میں اپنی فیس ہی نہیں جج کی طے شدہ فیصلے کی بھاری پیمنٹ بھی شامل ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کے اس فارمولے کے موجد ایک وفاقی وزیر رہنے والی شخصیت ہیں جن کے قریبی عزیز لاہور ہائیکورٹ کے اعلیٰ عہدے پر تھے اور انہوں نے ہائیکورٹ کے سامنے ہی دکان لگائی ہوتی تھی اور پھر اس کے بعد کچھ اوروں نے بھی یہی کام کیا یعنی باپ چیف جسٹس تھا اور بیٹوں کے چیمبرز بالکل سامنے تھے، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے اور نام آپ کو ہائیکورٹ کے کسی بھی وکیل سے پتا چل جائیں گے۔ یہ وہ ادارہ اور کمیونٹی ہے جس کے ذمے انصاف کی فراہمی ہے۔

بورڈ آف ریونیو یعنی پٹواریوں اور تحصیلداروں وغیرہ کی کرپشن تو اتنی عیاں ہے کہ اے سی، ڈی سی آسانی کے ساتھ ان پر ایک ایک روز میں کئی کئی لاکھ کے خرچے ڈال دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے کمائو پوت ہیں روزانہ کے کئی لاکھ کے خرچوں کا مطلب ہے کہ مہینے کے کئی کروڑ کے خرچے۔ اب یہ اے سی، ڈی سی کون ہیں، یہ وہی ہیں جو ہماری سوسائٹی کی کریم ہیں، جو سی ایس ایس کرکے جاتے ہیں اور یقین کیجئے چند مہینوں اور ہفتوں نہیں بلکہ دنوں میں مال بنانے کے طریقے سیکھ جاتے ہیں، ماشاء اللہ، بہت ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں۔

صحت اور تعلیم میں دیکھ لیجئے، ایک سے ایک سنکی اور فرسٹریٹڈ بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر ہڑتالیں کرتے ہیں، ادویات چوری کرتے ہیں، پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں اور محکمہ تعلیم کے دفتر میں بیٹھنے والے افسران نے اپنے وزٹس کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ ان کی کرپشن بھی الگ قسم کی ہے جیسے سرکار سے لاکھوں کروڑوں بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لیے، لیے اور پھر مسنگ ہو گئے۔ اب آپ کارپوریشن والوں پر آ جائیں۔ جب حکومت کہتی ہے کہ تجاوزات ختم کرو وہ تب ہی رشوت نہیں لیتے بلکہ اس سے پہلے وہ تجاوزات قائم کرنے کی رشوت لے رہے ہوتے ہیں۔

میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ تجاوزات متعلقہ عملے کو رشوت دیئے بغیر قائم ہی نہیں ہو سکتیں جیسے کہ بجلی متعلقہ لائن مین کو منتھلی دئیے بغیر چوری نہیں ہو سکتی۔ محکمہ خوراک کی بہت کسٹمائزڈ کرپشن تھی جس میں گندم کی خریداری، ذخیرہ کرنا اور فروخت کرنا شامل تھا۔ بہت ساری گندم چوری ہو جاتی تھی اور بہت ساری خراب اور حکومت اس پر کروڑوں، اربوں کا نقصان برداشت کرتی تھی۔ حکومت نے بڑی تنقید برداشت کی کہ کسانوں سے گندم کی خریداری بند کر دی گئی ہے۔ کسانوں کو مشکل ضرور ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی بدعنوانی کی راہ بند کر دی گئی۔

یہ کالم لکھنے کا خیال مجھے لیسکو یعنی لاہور میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی سے شکایات پر آیا۔ میں نے لیسکو سمیت ملک بھر میں لائن مینوں کی ہلاکتوں پر کالم بھی لکھے اور پروگرام بھی کیے۔ ان کی بہتر تنخواہوں اور حفاظتی انتظامات کے اپنے صفحات اور سکرین پر مقدمے بھی لڑے۔ مجھے ان کی مشکلات اور شہادتوں پر افسوس بھی ہے مگر اس پر غصہ بھی کہ کیا کوئی ایک بھی لائن مین ایسا ہے جو کسی شکایت پر بغیر خرچہ اور مال پانی لیے آتا ہو۔

سچی بات تویہ ہے کہ الیکٹرسٹی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے شکایات کے پورٹل بھی محض خانہ پری ہیں اور ننانوے فیصد فراڈ۔ آپ لیسکو میں شکایت کریں تو مجال ہے کہ اس کا ازالہ خجل خواری کے بغیر ہو جائے۔ مجھے ایک ٹرانسفارمر کی ڈی لگوانے کے لیے جو محض پانچ منٹ کا کام ہوتا ہے، نو سے دس گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور جیسا میں نے کہا کہ ہر کسی کے پاس جواز موجود ہیں جیسے لیسکو آفیشلز کے پاس کہ عملہ بہت کم ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تو پورا بل دیتا ہوں بلکہ پورے سے بھی زیادہ۔ مجھ سے ملک کے ان حصوں کا بل بھی لائن لاسز کی صورت میں لیا جاتا ہے جن کے لوگ بالکل بل ادا نہیں کرتے تو کم از کم میرے علاقے میں تو عملہ پورا کر دیں اور اگر کوئی شکایت کی جائے تو اسے ایک آدھ گھنٹے میں دور کر دیں۔

کرپشن اور قانون شکنی ہمارے اندر تک پہنچ چکی ہے۔ ہم ہیلمٹ نہیں پہننا چاہتے، سیٹ بیلٹ نہیں لگانا چاہتے۔ ہم ٹریفک سگنل پر نہیں رکنا چاہتے، ون وے کی دھڑلے سے خلاف ورزی کرتے ہیں اور اگر کوئی روکے تو الٹا اسے گالی دیتے ہیں۔ ہم قانون کی خلاف ورزی کو ظلم سمجھتے ہیں اور نہ ہی زیادتی لیکن اس پر جرمانہ ہو جائے تو اسے ظلم اور زیادتی کہہ کے روتے ہیں۔ ہم گالی دینے والے کو بہادر اور رشوت لے کر کام کرنے والے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ بطور قوم ہمارا سافٹ وئیر خراب ہو چکا تو ایسے میں سیاستدان، صحافی اور دانشور کون سا مریخ سے آتے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam