راغب نعیمی فارمولا
جڑانوالہ کے واقعے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ توہین کس نے کی۔ ہمارے بنیاد پرست یا اسلام پرست دوستوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں سیاسی پناہ لینے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ ایسے معاملے میں ملوث ہوجاؤ۔ این جی اوز اس پر اپنا کاروبار چمکائیں گی، حکومت اور عدالت بھی باہر کی دنیا کے سامنے نمبر بنانا چاہیں گی اور نتیجے میں توہین ایک پرافٹ ایبل رسک، بن جائے گا اور یہ معاملے کا ایک پہلو ہے جس کو ثابت کرتی ہوئی بہت ساری مثالیں ہیں مگرمثالیں دوسری طرف بھی موجود ہیں کہ دکھ کسی اور بات کا تھا، جھگڑا کچھ اور تھا مگر اسے توہین کا ایشو بنا دیا گیا جیسے گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن پر یہ الزام اور پھر اسے ہجوم نے موت کی سزا دے دی۔ جھگڑا فیکٹری میں تنخواہوں اور ڈیوٹیوں کا ہوتا ہے اور معاملہ اسے توہین مذہب کا بنا دیا جاتا ہے۔
بشپ ندیم کامران، مال روڈ پر ہائیکورٹ کے سامنے شاندارچرچ میں ہوتے ہیں اور بشپ آف لاہور ہیں، وہ کامن سینس کا ایک سوال کر رہے تھے کہ کیا کوئی مجرم سنگین جرم کرتے ہوئے اپنی تصویر، نام اور فون نمبر جائے وقوعہ پر چھوڑ کے جاتا ہے، ہرگز نہیں، مگر جڑانوالہ میں ایسا ہی ہوا کہ جب فجر کی نماز کے بعد توہین آمیز تحریر ملنے کا شور مچا تو اس کے ساتھ تصویریں بھی لگی ہوئی تھیں جس نے معاملہ مشکوک کر دیا۔
ہمارے نمائندے حافظ عبدالحیی ملک نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ توہین آمیز تحریر کے ساتھ دو تصویریں لگی ہوئی تھیں، مبینہ طور پر توہین کرنے والے کانام اور نمبر بھی موجود تھا اور وہاں کے صحافی خود اس معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن چونکہ نکتہ ہر بات سے نکالا جا سکتا ہے تو یہاں بھی یورپ کی نیشنلیٹی کا ہی نکالا جا رہا ہے مگرسوال یہ ہے کہ یہ رسک بہت بڑا ہے۔ ایسے معاملے میں کوئی بچے گا تو اس کے بعد ہی وہ امریکا یا یورپ وغیرہ کی شہریت لے سکے گامگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاملہ نہ سیدھا سادا ہے اور نہ ہی شکوک سے پاک۔
میں حتمی نہیں کہہ سکتا کہ مجرم کون ہے مگر توہین کسی نہ کسی نے توضرور کی ہے۔ چاہے وہ ریڈ مارکرکے ساتھ قرآنی صفحات پر لکھی ہوئی باتیں ہوں یا سفید کاغذ پرلکھی تحریر ہو۔ اگر وہ کسی مسیحی نے نہیں لکھی جس کے امکانات موجود ہیں تو پھر اس کے کسی دشمن نے لکھی ہے جو اسے پھنسانا چاہتا ہویا کسی امن کے دشمن نے لکھی ہے جو قرآن پاک کی توہین کے حوالے سے عالمی واقعات کا فائدہ اٹھا کے پاکستان میں مسلم اور مسیحی برادریوں کے درمیان جھگڑا اور فساد چاہتا ہو۔
میں بہت سارے اخبارات میں واضح طور پر چھپی ہوئی اس خبر کوبھی غلط نہیں کہہ سکتا کہ اس میں بھارت کی ایجنسی را ملوث ہے، یہ عین ممکن ہے۔ بھارت کو اقلیتوں سے ناروا سلوک کے حوالے سے بڑی بدنامی اورمشکلات کا سامنا ہے اور اس کی شرپسند ایجنسی نے بے ضمیروں کو خرید لیا ہو۔ میں پوچھا کہ یہ معاملہ جڑانوالہ میں ہی کیوں ہوا، لاہور، کراچی یا راولپنڈی سمیت ان علاقوں میں کیوں نہیں جہاں مسیحی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ علامہ راغب نعیمی جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم اعلیٰ ہیں اور اس وقت متحدہ علما بورڈ کے چیئرمین ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ ایسے واقعے کے لئے کسی چھوٹے شہر کا چناؤ سازشیوں اور فسادیوں کے لئے زیادہ بہتر نظر آتا ہے جہاں افہام و تفہیم کے لئے بیوروکریسی اور علما کی موجودگی کم سے کم ہو۔ وہ اسے ہجوم کی نفسیات کے ساتھ جوڑ رہے تھے اور جہاں بشپ ندیم کامران متعدد واقعات کا حوالہ دے رہے تھے وہاں راغب نعیمی بھی جواب میں یوحنا آباد کانام لے رہے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ ایک بے وقوف اے ایس آئی ہجوم کو ٹریٹ نہ کر رہا ہوتا تو شائد فساد کو ہونے سے روکا جا سکتا تھا مگر سب کچھ مس ہینڈل ہوا۔
اسی معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عوام کو ایسے مقدمات میں انصاف کی توقع نہیں اوریہ بات سچ ہے کہ اگر ہمارا ایک چیف جسٹس بیرون ملک جا کے توہین کی ملزمہ آسیہ کو چھڑوانے کا کریڈٹ لے گا تو اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ انصاف کا معاملہ بھی دونوں طرف سے ہی قابل رحم ہے کہ عام وکیل عام طور پر توہین کے ملزموں کے مقدمات تک لینے اور دوسری طرف جج ان کے مقدمات اپنے پاس لگوانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ جب عوام کو قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی پر یقین نہیں ہوگاتو اس کا نتیجہ جڑانوالے جیسا ہی نکلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے ہر معاملے میں مقامی مولوی جلتی پر تیل ڈالتے ہیں۔
میں نے متحدہ علما بورڈ کے چیئرمین سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ جب ہمارے مولوی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ رحمت اللعالمین تھے تو وہ خود غیض و غضب کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں۔ جواب میں میرے پاس جو اعداد وشمار آئے وہ حیرت انگیز تھے۔ مجھے علم ہوا کہ پنجاب میں باون ہزار مساجد ہیں اور ان میں سے صرف ساڑھے چار سو اوقاف کے پاس ہیں۔ اکاون ہزار پانچ سو پچاس مقامی سطح پر بنی ہوئی کمیٹیوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ یہاں پر اسی فیصد سے زیادہ آئمہ کرام اور خطیب حضرات انڈر ایجوکیٹڈ، ہیں۔ میں نے علامہ راغب نعیمی سے پوچھا کہ کیا اس کا حل یہ ہے کہ حکومت تمام مساجد کو اپنی تحویل میں لے لے۔ وہاں تعلیم اور تقریر سمیت ہر شے کنٹرولڈ ہو۔ اس کا جواب
تھا کہ ہمارے ہاں مسجد کا ادارہ ناگفتہ بہ حالت میں ہے مگر حکومت کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ان تمام مساجد کا نظام سرکاری طور پر چلا سکے، ہاں، یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ جس طرح پڑھانے کے لئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کروائے جاتے ہیں اسی طرح حکومت ایک سال تک کے کورسز تمام مسالک کے آئمہ اور خطیب بننے کے لئے لازمی قرار دے اور وہاں تمام مسالک کے علما تعلیم دیں۔ یہاں سوک ایجوکیشن کی اشد ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ساتھ دین کو علمائے کرام کا ذریعہ معاش نہیں ہونا چاہیے جس کی ایک توجیہہ یہ ہے کہ اگر دین سے کمائیں گے تو پھر وہ دین کو ہی بیچیں گے۔
سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ کلمہ تو دنیا بھر کے یورپ اور امریکا سمیت دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں نے پڑھا ہوا ہے مگر اسے پڑھ کے باؤلے ہم ہی ہوئے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے پورے خطے کا مسئلہ ہے، انڈیا میں ہندو باؤلے ہوئے پھرتے ہیں اور یہاں ہم۔ ہمیں ایک طرف قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی پر اعتمادبڑھاناہوگا اور دوسری طرف سیاست سے مذہب تک ہر جگہ پھیلی ہوئی اپنی جذباتیت اور انتہا پسندی کو لگام دینی ہوگی ورنہ ہم ایک دوسرے کو اسی طرح مارتے رہیں گے۔