پی ٹی آئی ختم شُد

اگر آپ پی ٹی آئی کو عمران خان سے مشروط سمجھتے ہیں جیسے مسلم لیگ نون، نواز شریف کے نام سے ہے تو وہ پی ٹی آئی تیزی سے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عمران خان کی نو مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانتیں منسوخ اور خیبرپختونخوا کی اسمبلی سے بجٹ منظور ہونے سے پورا منظرنامہ واضح ہوگیا ہے۔ عمران خان اور اس کے سوشل میڈیا حواریوں کے ہاتھ سے گیم پوری طرح نکل چکی ہے۔
مجھے علم ہے کہ بہت سارے دلیل دیں گے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے بھی مارشل لائوں کے بعد کم بیک، کیا تو پی ٹی آئی کیوں نہیں کرسکتی جب اس کے پاس ایک صوبے میں حکومت بھی موجود ہے تو اس پر میں بعد میں بات کروں گا پہلی بات نومئی کے مقدمات میں ضمانت نہ ملنے کا معاملہ ہے تو یہ عین آئین، قانون، پراسیکیوشن اور کریمنالوجی کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
نو مئی محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ پاک فوج میں بغاوت کی منظم کوشش تھی جس کے بارے شواہد ہیں کہ اس کی کوارڈی نیشن آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، سابق کورکمانڈر مگر عمران خان کے وفادار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کر رہے تھے، جی ہاں، وہی فیض حمید جن کے چکوال کے گروپ سے مبینہ طور پر دو ریٹائرڈ بریگیڈئیرز لاہور کے زمان پارک میں ان جتھوں کی تربیت کر رہے تھے جو رینجرز اور پولیس پر دیسی ساختہ پٹرول بموں کے ساتھ حملے کر رہے تھے، اسلام آباد میں آگ لگا رہے تھے۔
جی ہاں ! ذرائع اور شواہد کے مطابق جنرل فیض حمید اپنے کچھ ہم خیالوں کے ساتھ لاہور سمیت دیگر جگہوں پر رابطے میں تھے اور ان کا پلان تھا کہ فوج میں بغاوت کرا دی جائے۔ فیض حمید نے اس سے پہلے عین ان دنوں میں جب فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے جا رہے تھے ایک لانگ مارچ کا اہتمام بھی کرایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ لاہور کے لبرٹی چوک سے چلنے والے اس لانگ مارچ کے نتیجے میں وہ جنرل عاصم منیر کا راستہ روک لیں گے۔ یہ سازش اتنی خوفناک تھی کہ جب وزیراعظم شہباز شریف، میاں نواز شریف کی مشاورت سے آرمی چیف کے لئے ایک انتہائی دیانتدار، پیشہ ور اور محب وطن جرنیل کا چنائو کر رہے تھے تو ان کے ارد گرد افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ کسی بھی وقت مارشل لا لگایا جا سکتا ہے مگر شہباز شریف نے اعصاب کی یہ جنگ جیت لی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نو مئی کوئی پہلی کوشش نہیں تھی۔ ان کا پلان تھا کہ جیسے ہی سپہ سالار کے خلاف بغاوت ہوگی اس کے ساتھ ہی حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا جائے گا اور اس بغاوت کو انقلاب کا نام دیتے ہوئے اس وقت کی سپریم کورٹ کے کچھ ججوں سے اس پر مہر لگوا لی جائے گی۔ میرا بطور صحافی یہ کہنا ہے کہ اگر عمران خان کی نو مئی کے مقدمات میں ضمانت ہوجاتی تو یہ سارا مقدمہ ہی ختم ہوجاتا کہ ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ ساز کے باہر نکلنے کے بعد کون سا کیس اور کہاں کا مقدمہ۔
ہمارے کچھ معصوم دوست اس پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں کہ جس وقت نو مئی کے حملے ہوئے عمران خان اس وقت گرفتار تھے تو انہیں بتانا ہے کہ وہ اس کی منصوبہ بندی کرکے اور ڈیوٹیاں لگا کر گئے تھے کہ کس شہر میں کس کس نے کس کس جگہ پر حملے کرانے ہیں۔ میں بطور سیاسی تجزیہ کار اس وقت جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ سیاسی تاریخ کے اہم ترین مقدمے کا اگلا باب شروع ہوسکے۔
یہ بانی پی ٹی آئی کی ایک احمقانہ ہدایت تھی کہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں چونکہ ان کی پارٹی کے پاس دو تہائی اکثریت ہے تو بجٹ منظور نہ کیا جائے اور اس پر ان کی رہائی کے لئے بلیک میلنگ کی جائے۔ یہاں سوال ہے کہ اگر خیبرپختونخوا کا بجٹ منظور نہ ہوتا تو صوبہ کیسے چلتا۔ لاکھوں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں کیسے ملتیں اور قانونی و کاروباری ادائیگیاں کیسے ہوتیں مگر عمران خان ایسی ا حمقانہ کالز دینے میں ماہر ہیں جیسے انہوں نے پاکستان بند کرنے کی کال دی اور ریمی ٹینسز روکنے کی اور اس مرتبہ کی طرح ہر مرتبہ ناکام اور نامراد ہوئے مگر یہاں عمران خان کے مائنس ہونے کی اصل بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا نے عمران خان کی ہدایت کے باوجود بجٹ نہ صرف منظور کر لیا بلکہ پنجاب سے بھی پہلے منظور کر لیا۔
ان کی ایک امُید کسی بڑے احتجاج سے تھی جو چوبیس نومبر والی فائنل کال کے بعد ختم ہوچکی جس میں علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی نے کارکنوں کو رات کے اندھیرے میں چھوڑ کر فرار ہو کے بزدلی اورشرمندگی کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ ان کی آخری امید امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تھی جس کے لئے وہ تیسرے درجے کے ایک ہم جنس پرست امریکی سیاستدان رچرڈ گرنیل کی پالش اور مالش بھی کرتے رہے، لابنگ فرمز پر شوکت خانم کے نام پر اکٹھے کئے ہوئے ڈالراور پونڈ پانی کی طرح بہاتے رہے۔
اب آتے ہیں اس امید کی طرف کہ اگر مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کم بیک کرسکتی ہیں تو پی ٹی آئی کیوں نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمران خان سیاست نہیں جانتے، وہ گورننس بھی نہیں جانتے تھے اور المیہ یہ ہے کہ ایمانداری اور حب الوطنی بھی نہیں۔ اگر ہم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کی مثالیں لیں تو عمران خان کے پاس بینظیر بھٹو اور مریم نواز جیسی جنگجو بیٹی بھی نہیں۔ ان کے معلوم جائز بیٹے بھی یہودیوں کے پاس یرغمال ہیں۔
ان کے لئے کوئی مسلم ملک بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ جو بات کر سکتے تھے ان کا وہ اعتماد مجروح کر چکے۔ وہ جیسے ہی منظرنامے سے غائب ہوں گے تو ان کی پارٹی پہلے خیبرپختونخوا اورپھر پنجاب میں پارہ پارہ ہوجائے گی اور جس عہدیدار کے ہاتھ جو لگے گا اسی طرح لے بھاگے گا جس طرح عمران خان اور بشریٰ بی بی توشہ خانہ سے ملک ریاض تک سے جو ملتا رہا، ہڑپ اور ہضم کرتے رہے جس نے ان کا سیاسی پیٹ خراب کردیا۔
نواز شریف کی ایک مارشل لا کو شکست دے کر واپسی ایک معجزہ تھی مگر اس میں ان کے تدبر اور تحمل کا بھی بڑا کردار تھا جو ہمیں عمران خان میں رتی برابر بھی نظر نہیں آتا۔ ایک بات اور، کیا فوج عمران خان پر یقین کر لے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر عمران خان کم از کم جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی معاف کر دیتے یا فیض حمید کے ساتھ ہی کھڑے ہوجاتے تو ان کی کوئی پروفائل بن جاتی مگر وہ احسان فراموش اورموقع پرست ثابت ہوئے، اب ان پر موجودہ قیادت کیسے اعتماد کر سکتی ہے جس کے خلاف وہ گھٹیا پن کی ہر انتہا پر اتر آئے۔ کیا کہا؟ جنرل عاصم منیر کے عہدے سے ہٹنے کے بعد؟ کیا عمران خان پچاسی برس کی عمر میں واپس آنے کی امید رکھ رہے ہیں؟