پی ٹی آئی غلطیوں کا اعتراف کر لے
پی ٹی آئی کے کچھ دوست خوش گمان ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر مجھے ان کے حق میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ نومئی کے واقعات کے بعد عمران خان کی محبت میں گرفتار ایک سابق عہدیدار نے پروگرام میں شرکت کے بعد لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے بہت ہی خفیہ انداز میں اطلاع دی کہ ان کے لیڈر کے مقتدر حلقوں سے معاملات طے پا گئے ہیں حالانکہ یہ رہنما پنجاب کے اُس وقت نہ ہونے والے انتخابات میں مڈل مینوں کو دو سے تین کروڑ روپے ادا نہ کرنے کی وجہ سے ٹکٹ سے بھی محروم تھا مگر خدا جس کے دماغ پر پردہ ڈال دے، آپ اسے عقل اور فہم کی طرف نہیں لاسکتے۔
میں نے کبھی دوٹوک انداز میں دوستوں کی بات کی تردید نہیں کی مگر اس موقعے پر واضح کہا کہ آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں، بات روز برروز بگڑتی جا رہی ہے، نومئی ایک بڑی غلطی تھی اوراس کے بعد ضدی، ہٹ دھرم اور اناپرست عمران خان کی ان حملوں کو فوج پر ہی ڈالنے کی سازش اس سے بھی بڑی غلطی تھی۔ اس سے پہلے اس پارٹی کا ہر چھوٹا بڑاشہباز گل، پروپیگنڈہ کر رہا تھا کہ فوج پی ٹی آئی کے حق میں تقسیم ہوچکی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کی گذشتہ روز کی پریس کانفرنس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے رکھ دیا ہے۔ جو فوج اپنے لیفٹیننٹ جنرل، میجرجنرلوں اور بریگیڈئیروں کو معاف نہیں کررہی، ان کی بیگمات، نواسیوں اور دامادوں تک کو رعائت نہیں مل رہی تو وہ باقیوں کی حرکت کیسے بھولے گی؟ کیسے معاف کرے گی؟
غلطیوں کا سفر جاری ہے۔ ابلیس کی بڑی غلطی سجدہ نہ کرنا توتھی مگر اس سے بھی بڑی غلطی اس غلطی پر ڈٹ جانا تھا۔ اب پی ٹی آئی چیئرمین کی ہر الم غلم گفتگو رپورٹ نہیں ہوتی لہٰذا اب سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس دلائل سے بھرپور تھی، واضح تھی، منطقی تھی۔ پی ٹی آئی پروپیگنڈے میں میکاولی اور گوئبلز کی اپروچز کی فالوور ہے کہ جہاں آپ کی بجائے آپ کے مخالف کے پاس سچ ہو تو اس سچ کو کنفیوژ کر دو، اس میں ابہام پیدا کر دو تاکہ لوگ گمراہ ہی رہیں۔
پی ٹی آئی آفیشئل نے اس پریس کانفرنس کے بعد آٹھ سوال کئے ہیں اور پہلا یہ ہے کہ سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کا ہوا، اسے یہ ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اوریا مقبول جان جیسے لوگوں سے قائد اعظم سے بھی زیادہ مقبول کہلوانے والا ان کا چیئرمین سمجھتا تھا کہ جو کام انڈیا اپنی فوج کے ساتھ نہیں کرسکا وہ اپنے ذہنی غلام کارکنوں اور گمراہ عوام کی مدد سے کر لے گا یعنی جی ایچ کیو سے کورکمانڈر ہاؤسز تک پر اس کے لوگوں کا قبضہ ہوجائے گا اور وہ فتح کے پھریرے لہراتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوجائے گا۔
ہر گدھا دیوار پھلانگنے سے پہلے خو د کو ہرن سمجھتا ہے مگر جب ٹانگیں تڑوا بیٹھتا ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں مگر یہاں تو ٹانگیں تڑوا کے بھی آنکھیں نہیں کھلیں۔ د وسرا سوال اس سے بھی مضحکہ خیز ہے کہ عمران خان کو ہائیکورٹ کے احاطے سے مضحکہ خیز انداز میں گرفتار کس نے کروایا تو ا س کا جواب ہے کہ کیا عمران خان پاکستان کا پہلا سیاستدان ہے جو گرفتار ہوا۔ کیا پاکستان کے سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ اور سابق وزیر تک گرفتار نہیں ہوتے رہے۔ کیا مریم نوازکو جیل کے اندر سے پابند سلاسل باپ کے سامنے گرفتار نہیں کیا گیا۔ کیا خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی گرفتاری ہائیکورٹ کے احاطے سے نہیں ہوئی۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عمران خان کی رہائی انصاف، قانون اور عدالتی روایات کو پاؤں تلے روند کر ہی ممکن بنائی گئی ہے۔
تیسرا سوال ہے ہے کہ انٹرنیٹ کیوں بند کیا گیا تو جواب ہے کہ انہی وجوہات پر جن پر تمہاری حکومت میں تحریک لبیک سمیت دیگر تحریکوں میں ہوتا تھا حالانکہ وہ سیاسی جلوس ہوتے تھے اور فوجی یا سرکاری تنصیبات پر حملہ آور بھی نہیں ہوتے تھے۔ یہ محض کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے ورنہ انٹرنیٹ بحال رہتا تو بلوائی دوسو سے بھی زائد جگہوں پر کامیابی سے حملہ آور ہوتے اور بھارت میں جشن کروا رہے ہوتے کہ انہوں نے پاکستان کی فوج کو فتح کر لیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی بندش ایسے موقعوں پر سکیورٹی ایس او پیز کا حصہ ہے تاکہ دہشت گردوں اور فسادیوں کا آپس میں رابطہ کم سے کم کیا جا سکے۔
چوتھا سوال پریس کانفرنس کرکے بری الذمہ ہونے والوں کے بارے ہے تو اس بارے یقین رکھیں کہ پریس کانفرنس وہی کر رہے ہیں جو عمران خان کے سیاسی مستقبل کو ختم دیکھ رہے ہیں، یہاں بات بری الذمہ ہونے کی گئی ہے تو جواب ہے کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل، میجرجنرلز اور بریگیڈئیر سکیورٹی لیپس میں بری الذمہ نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی کے فسادی کیا فوج کو اپنے ایک فور سٹار جنرل کی نواسی اور ایک کے داماد یا کچھ کی بیگمات سے زیادہ پیارے ہیں، ہرگز نہیں۔
پانچویں سوال فری ٹرائل سے بھاگنے کا ہے، جواب ہے کہ اگر فری ٹرائل سے بھاگنا ہوتا تو اس وقت فوجی عدالتوں کو متنازع کرنے والے مشرف دور کی طرح بالوں سے گھسیٹ کر گھروں میں پہنچا دئیے گئے ہوتے۔ فوج بہت صبر اور تحمل کے ساتھ بہت ہی میچور رسپانس دے رہی ہے ورنہ پی ٹی آئی کامنصوبہ یہی تھا کہ اگر اس کا قبضہ نہ بھی ہو تو ملک میں مارشل لا لگ جائے، جمہوریت ڈی ریل ہوجائے تاکہ کسی کو بھی کچھ نہ ملے۔
چھٹا سوال چھٹی کنفیوژن پیدا کے لئے ہے کہ اگر تحریک انصاف ملوث ہے تو ثبوت کیوں نہیں سامنے لائے جا رہے۔ نجانے یہ لوگ ان تمام فرانزک آڈٹ سے گزری ہوئی ویڈیوز، فون کالز اور دیگر ثبوتوں کو ثبوت کیوں نہیں سمجھ رہے، یہ ایسے ثبوت ہیں جو پی ٹی آئی اور عمران خان کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے کافی ہیں۔
ساتواں سوال پولیس کے نہ روکنے اور آٹھواں کور کمانڈر ہاؤس کی سکیورٹی نہ ہونے پر ہے تو میجر جنرل احمد شریف کے جواب پر کہ فوج پر سازش کا الزام شرمناک ہے، میرا جواب ہے کہ آپ انا اور اکڑ کے شکار ابلیس کی طرح غلطی پر غلطی کر رہے ہیں۔ اپنی غلطی کو اس کے سر تھوپ رہے ہیں جس کو آپ نے نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں بھارت کے میڈیا میں ہولی اور دیوالی کا سماں تھا۔
مان لیجئے، آپ کی ہر غلطی پہلے سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اپنی خوش فہمیوں، اکڑ، انا اور جہالت کے حصار سے باہر نکلیں۔ کوئی سیاسی جماعت ریاست سے لڑ کے سیاسی جماعت نہیں رہتی۔ پی ٹی آئی اپنے عقلمند، تجربہ کار اور بردبار لوگوں کو جمع کرے۔ ان سے مشورہ لے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔