پٹرول کیسے سستا ہوسکتا ہے؟
بغیر کسی تمہید کے، پٹرول اسی صورت سستا ہوسکتا ہے اگر پاکستان آئی ایم ایف سے اپنامعاہدہ ختم کردے اوراس کے ساتھ ہی حکومت بجلی کایونٹ بھی سستا کر سکتی ہے، ان دونوں کی قیمت آدھی کی جاسکتی ہے اور ایک چوتھائی بھی مگر ا س وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی کے بلوں کی مد میں چند ارب کے ریلیف کی اجازت سے بھی انکار کردیا ہے۔
جماعت اسلامی کے دوست مہنگے تیل اور مہنگی بجلی کے خلاف گورنرہاؤسوں کے باہر دھرنے دینے جا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا احتجاجی دھرنوں سے تیل اور بجلی سستے ہو سکتے ہیں، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس سے صرف سیاسی فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔ عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ دلچسپ امر نہیں کہ وہ تمام جماعتیں جن کو رتی برابر بھی امید ہے کہ وہ اقتدار میں آسکتی ہیں اس اہم ترین مسئلے پر خاموش ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر انہوں نے احتجاج کیا، کوئی نعرہ لگایا یا کوئی امید دلائی تو عوام بعد میں ان کا گریبان پکڑیں گے۔
میں نے بہت سارے دوستوں سے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کو ناراض کئے بغیریہ دونوں آئٹمز کیسے سستے کئے جا سکتے ہیں تو ان کے پاس بہت سارے پلان ہیں جیسے ایف بی آر کے ذریعے بہت سارے ٹیکسوں کی وصولی اور جیسے ڈھیر ساری بیرونی سرمایہ کاری۔ طاقتور افسر شاہی سے مفت پٹرول اور مفت بجلی کی سہولت کی مکمل واپسی اور مافیاز کے خلاف کوئی زبردست قسم کا آپریشن۔
میں ذاتی طو ر ان تمام اقدامات کا حامی ہوں مگر سوال ہے کہ یہ کب تک ہوسکتے ہیں اور کیا جب تک یہ سب نہ ہوں بجلی پٹرول مہنگے ہی رہیں۔ ڈالر کے بعد یہی دو ہیں جن کی بنیا د پر باقی تمام چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ٹیکسوں کی وصولی میں سب سے تیز رفتارترقی نواز شریف کے اس دور میں ہوئی تھی جب اسحق ڈار وزیرخزانہ تھے اور یہی وہ دور تھا جب انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کا چیلنج قبول کرتے ہوئے ڈالر کو سو روپے سے کم پرلا کر دکھایا تھا مگر یہی اسحق ڈار اس مرتبہ ٹھس ہو کے رہ گئے۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ ڈالر کی اصل قیمت دو سو روپوں سے کم ہے مگر ان کے دور میں بھی ڈالر چھلانگیں مارمار کے اوپر جاتا رہا۔ ٹیکس کلیکشن اورسٹاک مارکیٹ میں ان کے دور میں کچھ بہتری آئی مگر وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔
چلیں، کئی لوگوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنا بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس کے بعد ہم اس کی تھانیداری سے باہر نکل آئیں گے اور اپنے وسائل سے غریبوں کو ریلیف دے سکیں گے مگرمیں یہاں آپ کو ایک بنیاد ی بات بتا دوں کہ آج ہماری یہ ابتر صورتحال صرف اور صرف اس وجہ سے ہے کہ عمران خان نے اپنے دور میں آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا اور جب پٹرول کی قیمت میں بیس روپے اضافہ کرنا تھا تب دس روپے کمی کر دی۔ یہی کام اس نے بجلی کے یونٹوں کے ساتھ کیا کہ جب پانچ روپے بڑھانے تھے اس نے پانچ روپے کم کر دئیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف ناراض ہوگیا کہ اگر حکومت وصولیاں ہی نہیں کرے گی توقرضوں کی ادائیگیاں کیسے کرے گی۔
آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام معطل کر دیا اور عمران خان سستے تیل اور بجلی کے نعرے لگاتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہو گئے۔ ان کے اپنوں نے ٹھیک کہا تھا کہ وہ معیشت کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھا کے گئے تھے جنہوں نے پھٹنا شروع کر دیا۔ یہ مان لیا جائے کہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے اور یہ عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کی مدد سے بھی چلتا ہے۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ دوست چاہے کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں انہیں بھی اپنے ان ڈالروں کی فکر ہے جو وہ ہمارے خزانے میں ڈالتے ہیں کہ ہم انہیں واپس کر سکتے ہیں یا نہیں۔ جب آئی ایم ایف نے ہم پر عدم اعتماد کیا تو دوست ممالک نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔
دوست ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہماری اکانومی پر نظر رکھنے کے لئے کوئی ماہرین نہیں بٹھا سکتے۔ وہ سیدھا سادا کام کرتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کو مطمئن کردیں تو وہ بھی مطمئن ہیں یعنی آئی ایم ایف ان کی نظر میں ایک قابل اعتماد اکاؤنٹنٹ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ہم نے عالمی برادری کے ساتھ رہنا اور چلنا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف کی مٹھی چانپی کرنی ہوگی۔ آئی ایم ایف سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اتنی سرمایہ کاری لے آئیں کہ ہمارے پاس ڈالر ہی ڈالر ہو جائیں۔ ایس آئی ایف سی کے ذریعے اب حکومت اور فوج یہی کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اللہ انہیں کامیاب کرے۔
چلیں، ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ دیتے ہیں مگراس کے بعد ہم شائد سستی بجلی اور سستا پٹرول ایک آدھ ہفتے تک ہی دے سکیں کیونکہ اس کے بعد نہ صرف خزانہ خالی ہوجائے گا بلکہ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی ہمیں دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا۔ ایک احمق نے مجھے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹنے سے صرف امیر کا نقصان ہوگا غریب کا آئی ایم ایف سے کیا تعلق، کیا واسطہ۔
میں نے اس گدھے کو بتایا کہ جیسے ہی ڈیفالٹ ہوں گے اس کے ساتھ ہی تمام ادائیگیوں اور وصولیوں کے بین الاقوامی معاہدے معطل ہوجائیں گے۔ بین الاقوامی ادارے تیل اور گیس سمیت ہر شے کی سپلائی بند کر دیں گے۔ پھر یوں ہوگا کہ پٹرول کے جس لیٹر پر ہم سوا تین سو روپے پر رو رہے ہیں وہ ساڑھے تین ہزار روپے لیٹر بھی نہیں ملے گا کیونکہ وہ ہوگا ہی نہیں اور بجلی کے جس چالیس روپے کے یونٹ پر ہماری چیخیں نکل رہی ہیں وہ چار سو روپے یونٹ پر بھی نہیں ملے گا کیونکہ تیل، کوئلہ، گیس نہ ہونے کی بنیاد پر ہماری بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دو گھنٹوں کی ہی رہ جائے گی۔
میرا امیر اور غریب کے سوال پر کہنا تھا کہ امیر تو ملک سے بھاگ جائے گا اور اب بھی بھاگ رہا ہے مگروہ غریب امرا کے گھروں پر حملہ آور ہوگا جو ان تمام کارخانوں میں کام کرتا ہے جس کا مال ایکسپورٹ ہوتا ہے یا ان تمام دکانوں پر کام کرتا ہے جہاں امپورٹ کی ہوئی چیزیں بکتی ہیں۔ اس سے کم و بیش تین سے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے اور وہ سب کے سب غریب اورمحنت کش نہیں بلکہ مڈل اور اپر مڈل کلاس کے بھی ہوں گے۔
ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں کہ کیا ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں تو جواب ہے کہ ہم غلام نہیں مگر ان معاہدوں کے پابند ضرور ہیں جن کو ہمارے سابق حکمران کرکے گئے ہیں۔ اس وقت دنیا میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کوئی ذمہ دار سیاسی جماعت یہ معاہدے توڑنے اور قرضے ادا نہ کرنے کا نعرہ نہیں لگا سکتی۔ کوئی حکومت اڑھائی سو روپے لیٹر پٹرول اور چالیس روپے یونٹ بجلی بنا کے سستے نہیں دے سکتی۔ اس پر ٹیکسز بھی ہوں گے اور مارجنز بھی۔
حل صرف یہ ہے کہ مجموعی قومی دولت اور ترقی کی رفتاربڑھے، عام آدمی کا روزگار اور آمدن بڑھے، ہماری جمہوریت اور معاشی انصاف مضبوط ہوں توانہی کے نتیجے میں تین سو اکتیس روپے لیٹرپٹرول اور پچاس ساٹھ روپے کا بجلی یونٹافورڈ، ہوسکے۔