نیا نظام آگیا ہے
چیئرمین پی ٹی آئی کو جس صبح توشہ خانہ چوری کیس میں تین برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہوئی اور اسی دوپہر مشترکہ مفادات کی کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری کی خبر آ گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن اس امر کا پابند ہوگیا ہے کہ وہ عام انتخابات اسی کے تحت کروائے۔
جس شام وزیراعظم شہباز شریف نے انٹرویو دیا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے روزنامہ نئی بات نے اسی روز انتخابات میں تاخیر اور التوا کی لیڈ سٹوری شائع کر دی تھی۔ سیاست اور انتخابات کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی اور اقتصادی ہے۔ یہ ملک ابھی ڈیفالٹ ہوتے ہوتے بچا ہے اور ابھی اس کے آفٹر شاکس کا سامنا کر رہا ہے۔ اب آپ بیان کئے گئے ان تینوں موضوعات کو اکٹھا کریں تو میں آپ کو ایک خاص موضوع پر لے جانا چاہ رہا ہوں اور وہ پاکستان کے ممکنہ طور پر نئے نظام کے بارے میں ہے۔
اس موضوع پر جانے سے پہلے اس بات کو ذہن میں بٹھا لیجئے کہ ہم سب مغربی جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر ہم میں سے کوئی اسے لاگو اور نافذ نہیں کرنا چاہتا۔ مغربی جمہوری نظام کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر عوام ہیں اور ان کی نمائندہ سیاسی جماعتیں مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت موجود ہے۔
مجھے میرے دوست اس وقت جواب نہیں دے پاتے جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ فوج میں تو ایک کمیشن لینے والا عام نوجوان، چاہے وہ ایوب خان ہو، یحییٰ خان ہو، ضیاءالحق ہو، پرویز مشرف ہو، راحیل شریف ہو، قمر جاوید باجوہ یا حافظ قرآن سید عاصم منیر، وہ تو اعلیٰ ترین عہدے اور مقام پر پہنچ سکتا ہے تو کیا سیاسی جماعتوں میں بھی یہ ممکن ہے۔ کیافوج سے جمہوریت مانگنے والوں میں فوج کے مقابلے میں رتی برابر میرٹ اور جمہوریت موجود ہے؟
مسائل کچھ اور بھی ہیں جیسے پاکستان دنیا کی نظر میں نہ کوئی جمہوری اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی معاشی، نہ عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت اس کے ادارے مثالی ہیں، اس ملک کی اہمیت صرف اس کی سٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے ہے جو اسے سکیورٹی سٹیٹ بناتی ہے۔ ایسے میں جب سیاستدان آئین اور قانون پر متحد اور متفق نہیں ہوتے تواس کے نتیجے میں سیاسی عمل کمزور ہوتا ہے۔
بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہمارے مفاد پرست اور نااہل سیاستدان اس کے نتیجے میں معاشی ناکامی اور تباہی لاتے ہیں جس سے ہر پاکستان متاثرہوتا ہے۔ اس صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں جب ملک میں دہشت گردی اور لوڈ شیدنگ اپنی انتہا پر تھی تو مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت میں نہ صرف ان دونوں عفریتوں پر قابو پایا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کی تعمیر وترقی میں اہم کردارا دا کیا تھا۔
اگر عمران خان نام کا سیاستدان اس وقت مقتدر حلقوں کا ٹاؤٹ بن کے اس انتخابی اور جمہوری عمل کی ایسی تیسی نہ کرتا جس کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوا تھا اور مقتدر حلقے پروگرام کے مطابق قاف لیگ کو اقتدار دینے میں ناکام ہو گئے تھے تو ہم تعمیر اور ترقی کے اس پروگرام کو جاری رکھ سکتے تھے مگر ہم نے دھرنوں کی سازش کے بعد پچھلے عام انتخابات میں تینوں مرحلوں میں بدترین دھاندلی دیکھی یعنی پری پول رگنگ جب نواز لیگ کے امیدواروں سے ٹکٹ واپس کروائے گئے اور الیکٹ ایبلز بنی گالہ کی طرف ہانکے گئے۔
جب پولنگ ڈے پرآر ٹی ایس بند کروا کے انتخابی نتائج تبدیل کروائے گئے اور پھر ایم کیو ایم سمیت دیگر پارٹیوں کو پی ٹی آئی سے اتحاد کی طرف دھکیلا گیا، جیتے ہوئے آزاد امیدواروں کو ترنگے پٹے پہنائے گئے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں تاریخ کی نااہل ترین حکومت قائم ہوئی۔ وہ حکومت جس نے سقوط ڈھاکہ کے بعد آج سے چار برس پہلے ریاستی تاریخ کا دوسرا بڑا گھاو سقوط سری نگر دیا۔
جہاں آدھے سے زیادہ پاکستان یعنی پنجاب کو ایک نااہل اور نکمے ترین شخص کے حوالے کر دیا گیا وہاں پاکستان بھی ایک ایسے شخص کے حوالے تھا جو دوپہر کوسو کر اٹھتا تھا اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کے وزیراعظم کے دفتر میں آتا اور محض مال پانی بنا کے واپس لوٹ جاتا تھا۔ جب ایوان وزیراعظم میں بیٹھ کے توشہ خانہ لوٹا جا رہا تھا اور چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے لئے اس مقدس آفس کوعورتوں کو اغوا کرنے کے لئے استعمال کیا جار ہا تھا اس وقت ان کی وزارتوں میں لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔
اس امر سے انکار ناممکن ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور نچلی سطح تک مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ حکومت کو بھی پہنچا دیا گیا تھا کہ اب ہماری چھتری دستیاب نہیں ہوگی۔
یہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے لئے سنہری موقع تھا کہ جس ڈنڈے کے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی حکومت قائم کی تھی وہ اب ان کے پاس نہیں رہا تھا سو وہ کوبرا سے کیچوا بن چکے تھے اور کیچوے کی طرح ہی اٹھا کے باہر پھینک دئیے گئے تھے مگر یہاں سے انہوں نے جو سازش کی اس نے اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ ملکی معاملات میں مداخلت پر مجبور کر دیا۔ ان کی پہلی غلطی اور سازش فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق سے افسران تک کے لئے تضحیک آمیز الفاظ تھے مگر تباہی اس وقت ہوئی جب انہوں نے اپنی گرفتاری پر اپنے چند ہزار ٹائیگرز کو ملک بھر میں ٹاسک دیا کہ وہ پاک فوج پر اسی طرح حملہ کر دیں جس طرح بھارتی فوج کر سکتی تھی۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ عمران خان اس ریاست کے آئین، سیاست، معیشت اورمعاشرت ہر شعبے کے مجرم ہیں۔ انہوں نے ملک کی سیاست اورمعیشت کو نہج پر پہنچا دیا ہے کہ مقتدر حلقوں کی مداخلت ضروری ہوگئی۔ انہوں نے گوئبلز بن کے کم آئی کیو کے حامل ہر شخص کو گمراہ کیا ہے۔ وہ اس وقت تک آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال کرتے رہے جب تک ان پر پابندی نہیں لگی مگر اس وقت تک وہ میٹھے پانیوں میں بہت سارا زہر گھول چکے تھے۔
میں آج عمران خان کو جیل جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں امید کر سکتا ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے ہوئے ان کے کچھ سہولت کار ان کی مدد کو ضرور آ ئیں گے مگر یہ سلسلہ بھی اب ایک آدھ مہینہ ہی چل سکے گا۔ میں اپنے سیاسی اور معاشی نظام کی طرف دیکھتا ہوں تو افسوس کرتا ہوں کہ ایک مغرور اور مفاد پرست شخص نے جمہوریت کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔
اس وقت معیشت اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے انجکشن لگائے جائیں اور یہ انجکشن فوج کی مدد کے بغیر نہیں لگ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج نے زراعت، آئی ٹی، کان کنی اور دفاعی پیداوار سمیت پانچ شعبوں میں کردارادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار میں آ کر بھی ملک کو کمزور کیا اور اقتدار سے نکل کر بھی ملک کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ بہت سارے لوگ کہیں گے کہ یہ ایک پرانا نظام واپس آیا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ اب یہ ایک نیا نظام آ گیا ہے جومارشل لا نہیں ہے اور جس میں مجھے اب آئین کے مطابق انتخابات بھی دور جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس نئے نظام میں اولیت سیاسی اور معاشی استحکام کو دی جا رہی ہے تاکہ ملک کو بچایا جا سکے۔ اس نئے نظام میں فی الوقت ایک طاقتور نگران وزیراعظم نظر آ رہا ہے مگر اس کے ساتھ ہی آئندہ کے منظرنامے میں شہباز شریف کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے جو اپنی محنت، ایمانداری اور مفاہمت پسندی کی وجہ سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ کاش، یہ نیا نظام ملک بچالے۔