نواز شریف واپس آ رہے ہیں؟
مسلم لیگی کارکن میاں نواز شریف کے خواجہ رفیق شہید کی انچاسویں برسی پر کہے ایک فقرے پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ آپ سے جلد پاکستان میں ملاقا ت ہو گی۔ نواز لیگ کا میڈیا سیل اس فقرے کے گرافکس بنا کے سوشل میڈیا پر شیئرکر رہا ہے اور تاثر یہ بن رہا ہے کہ اس عظیم سیاسی کارکن کے یوم شہادت پر ہونے والے سیمینار بحرانوں میں گھرا پاکستان، وجوہات اور اصلاح احوال کی راہ، میں نتیجہ یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی ہی تمام بحرانوں کا حل ہے۔
میں نے ہمیشہ نواز شریف کے دور میں ہونے والی ترقی کی تعریف کی ہے باالخصوص جب انہیں آج سے نو برس پہلے دہشت گردی اورلوڈ شیڈنگ کا شکار پاکستان ملا تو ان کی حکومت نے صرف ایک پارلیمانی مدت میں ان مسائل کاشافی حل کیا، یہ کارکردگی یقینی طور پر سراہے جانے کے قابل تھی۔ مسلم لیگ نون چاہتی ہے کہ اس کے کارکنوں کی امید بندھی رہے، وہ مایوس نہ ہوں، پارٹی سے جڑے رہیں اور میرے خیال میں صرف یہی مقصد حکومتی جماعت کی ہر میدان میں ناقص ترین کارکردگی سے خود بخود حاصل ہی نہیں ہو رہا بلکہ بہت سارے لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کو کسی نئے پاکستان کے خواب پر ووٹ دئیے تھے وہ بھی کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں، توبہ توبہ کر رہے ہیں۔
آج سے تین چار ماہ پہلے، نواز لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے بھی ایک عدالتی پیشی کے بعد میڈیا ٹاک میں دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف دسمبر تک واپس آ رہے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ مختلف ٹی وی چینلوں کے ڈائریکٹر نیوز کو اس میں اتنی خبریت کیا نظر آ ئی کہ ہیڈ لائنز بنا دی گئیں۔ مجھ سے میرے ٹی وی چینل نے تبصرہ مانگا تو میرے پاس آٹھ، دس ایسی وجوہات تھیں جن کی بنیاد پرمجھے یہ بیان محض میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی ایک سستی کوشش نظر آیا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر نواز شریف نے وطن واپس آنا ہوا تو اس کا اعلان خود نوازشریف یا کم از کم مریم نواز کریں گی، وہ اس کی خبریت اور اہمیت کسی بھی دوسرے کو نہیں دیں گے۔
نواز شریف کی واپسی کسی عام مسافر کی طرح واپسی نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے پہلے سیاسی استقبالی ماحول بنایا جائے گا۔ یہ ماحول ظاہری بھی ہو گا اور باطنی بھی۔ میرے اس کالم کو یاد کیجئے جو نواز شریف کے علاج کے نام پر ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کر نے کے موقعے پر لکھا گیا تھا۔ میرا موقف تھا کہ جیل میں بند نواز شریف بوتل میں بند جن کی طرح ہے جس کی طاقت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے جلاوطنی کا فیصلہ کیا تو اس کے پیچھے ماضی کا تجربہ تھا، وہ مشرف دور میں بھی جلاوطن ہوئے تھے اور سات، آٹھ برس بعد واپسی پرانہوں نے اپنی مقبولیت اور طاقت دوبارہ حاصل کر لی تھی۔
بہت سارے لوگ یہ تاثررہے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو کوئی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ میں ان لوگوں کے نام جانتا ہوں جو نواز شریف کو فون پر کہتے ہیں کہ میاں صاحب یہاں لوگ آپ کا نام لے کر سوتے اور آپ کا نام لے کر اٹھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ وطن واپس آئیں تو بے نظیر اور خمینی کی وطن واپسی پر استقبال کے ریکارڈبھی ٹوٹ جائیں گے۔ ا ن میں سے بہت سارے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر شہباز شریف 2018 الیکشن سے پہلے استقبالیہ جلوس لے کر ائیرپورٹ پہنچ جاتے تو میاں نواز شریف کا انقلاب کامیاب ہوجاتا جس کی خاطر وہ اپنی بیمار بیوی کو چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ وطن واپس لوٹے تھے۔
میرا ان جذباتی لوگوں سے یہی کہنا ہے کہ کیا شہباز شریف نے ائیرپورٹ کے تما م سیکورٹی حصار توڑ کر رن وے پر پہنچتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو لینا تھا اور ایوان وزیراعظم پہنچا دینا تھا۔ ہمار ا مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے لیڈروں کو خوشامدی بہت اچھے لگتے ہیں جو ان کے لئے لمبی لمبی چھوڑتے رہیں۔ میرا اب بھی یہی کہنا ہے کہ اگر نوازشریف مقتدر حلقوں سے اپنے معاملات ٹھیک کئے بغیر وطن واپسی بارے سوچتے ہیں تو وہ سیدھے جیل جائیں گے۔ یہاں میری بطور صحافی یا بہت سارے قانون دانوں کی یہ رائے اہم نہیں رہے گی کہ نواز شریف کوملنے والی تمام سزائیں متنازع فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں تو انہیں اس کا ثبوت بھی دینا چاہئے۔ جب ان کو بہترین گورننس کا کریڈٹ دیا جاتا ہے تو انہیں اس یہ ڈس کریڈٹ بھی لینا ہوگا کہ وہ اپنے ہر دور میں اپنی انا کے باعث باقی قومی حلقوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنے میں بری طرح ناکام رہے اور ہر مرتبہ اقتدار سے جبری رخصت کئے گئے۔ میں دیوار سے ٹکر مارنے کے ایک واقعے کو اتفاق بھی سمجھ سکتا ہوں اور بہادری بھی لیکن جب آپ ایک ہی دیوار کو بار بار ٹکریں مار کے سر پھڑواتے ہیں، تکلیف اٹھاتے ہیں تو میں نہ اسے آپ کی بہادری قرار د یتاہوں اور نہ ہی فراست۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ نواز شریف جس جمہوریت کا ملک کے لئے مطالبہ کرتے ہیں ہمیں وہ جمہوریت ان کی پارٹی میں نظر نہیں آتی۔
میں اس موذن کو کیا لقب دوں جو اذان دینے کے بعد خودنماز نہ پڑھے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا، تحریک انصاف کے نئے جنرل سیکرٹری اسد عمر اور صوبائی صدور کا انتخاب کیسے اورکہاں ہوا، کیا یہ جمہوریت ہے، میرا جواب تھا کہ یہ انتخاب ویسے اور وہاں ہی ہوا جیسے نواز لیگ کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال اور صدر پنجاب رانا ثناء اللہ خان بنے۔ میرا تجزیہ ہے کہ نواز لیگ کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی پٹ چکا اور خود نواز لیگ اسے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اس وقت تسلیم کر چکی جب اس نے مارچ میں کئے جانے والے احتجاج کا نام مہنگائی مارچ رکھا۔
میرا مشورہ یہی ہے کہ نواز شریف اس وقت تک لندن کی حسین فضاؤں کو انجوائے کریں جب تک ان کے لئے دوبارہ این او سی تیار نہیں ہوجاتا، انہیں گرین سگنل مل نہیں جاتا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے بھائی اور دوست اس کے لئے تندہی سے کام کررہے ہیں جس کی بازگشت وزیراعظم عمران خان تک بھی پہنچ گئی ہے اور انہوں نے ترجمانوں کے اجلاس میں، بولنے کی عادت سے مجبور ہو کے، کہہ بھی دیا ہے کہ نواز شریف کی سزائیں ختم کرنے اور انہیں دوبارہ وزیراعظم بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
نواز شریف بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جلسے جلوس اور مارچ وغیرہ محض ظاہری کوششیں ہوتی ہیں، اصل فیصلے ان کے ذریعے نہیں ہوتے، یہ صرف جواز اور بہانے ہوتے ہیں، تحریک نظام مصطفی، نوے کی دہائی کے مظاہرے اور عمران خان کے دھرنے اس کی مثالیں ہیں۔
عقلمند را اشارہ است، نواز شریف واپس آنا چاہتے ہیں تو اسی طریقے سے آئیں جس طریقے سے لندن گئے تھے، یہی واحد طریقہ ہے ورنہ جو عوامی شعور ستر برسوں میں نہیں جاگا اور جو نظام لیاقت علی خان کے قتل، مادر ملت کی پراسرار موت، سقوط ڈھاکہ، بھٹو کے عدالتی قتل، ضیاء الحق کی ہلاکت، بے نظیر بھٹو کے مارے جانے اورپرویز مشرف کے فراروغیرہ وغیرہ سے بھی تبدیل نہیں ہوا وہ، بصد احترام، میاں صاحب کی آنیوں جانیوں سے بھی تبدیل نہیں ہوگا، آپ کو کرکٹ کے میدان میں کرکٹ ہی کھیلنی ہو گی۔