Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Molana Fazal Ur Rehman Se Umeedein Hain

Molana Fazal Ur Rehman Se Umeedein Hain

مولانا فضل الرحمان سے امیدیں ہیں

جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جو کچھ جامعہ حقانیہ میں مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت پر خطاب کرتے ہوئے کہا یا اس کے بعد قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کہا وہ ایک بڑی تبدیلی ہے، انہوں نے کہا دہشتگردی علمائے کرام تک پہنچ گئی ہے، مدرسوں پر حملے کرنے والے نہ مجاہد ہیں نہ مسلمان، یہ مجرم اور دہشتگرد ہیں۔ مجھے حامد الحق ثانی کی طرف سے مولانا کا یہ موقف واٹس ایپ پر ملا تو میرا کہنا تھا کہ صرف علمائے کرام ہی نہیں، اپنی ہی ملک کی فوج، اس کے سکولوں، ہسپتالوں اور بازاروں میں حملے کرنے والے بھی جہنمی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے قومی اسمبلی سے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے ذرائع سے جو کچھ رپورٹ ہوا اس میں انہوں نے کہا، ریاست کے سامنے بندوق اٹھانے والے دہشت گرد ہیں اور میری نظر میں ان کا یہ بیان بہت اہم ہے ورنہ اس سے پہلے دیوبندی مکتبہ فکر، جو کہ سیاسی طور پر بہت زیادہ مضبوط ہے، دہشت گردی کی مذمت اگر، مگر کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیرسید منور حسن کا ایک بیان بہت زیادہ متنازع ہوا تھا جس میں انہوں نے افغان دہشت گردوں کے مقابلے میں اپنے فوجیوں کی شہادت کو متنازع بنایا تھااور کہا تھا کہ اسلام کے لئے مرنے والا شہید ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے لئے کون لڑ رہا ہے۔

میں سید منور حسن کے ذاتی تقوے اور خشیبت الٰہی کا ہمیشہ سے گواہ رہا ہوں، میں نے انہیں منصورہ کی جامع مسجد میں لمبی لمبی نمازیں پڑھتے اور اللہ کے حضور تلاوت کرتے ہوئے کانپتے ہوئے بھی خود یکھا ہے، مالی امور میں ان جیسا ایماندار بندہ بھی شائد ہی کوئی دوسرا ہو مگرمیں بہت محتاط ہو کے، بہت معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ان کا پولیٹیکل ویژن بہت کمزور تھا۔

مولانا فضل الرحمان آج کل پی ٹی آئی کے قریب ہیں اور وہی عمران خان جو ان کے لئے ڈیزل، ڈیزل کے نعرے لگوایا کرتا تھا اب جیل سے پیغامات بھیج رہا ہے کہ وہ بھی اس کے ایسے ہی اتحادی بن جائیں جیسے محمود اچکزئی بن چکے ہیں مگر میرا اب تک گمان یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی کے ساتھ اپنے فرق کو برقرار رکھیں گے کیونکہ وہ تہتر کے آئین کے تناظر میں ریاست کی ضروریات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

میں اس قربت پر چاہتا تھا کہ مولانا فضل الرحمان، پی ٹی آئی کو بیٹھ کے سمجھائیں کہ دہشتگردی کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور سب سے بڑھ کے پاکستان کے پختون اور بلوچ کے مفاد میں تو بالکل ہی نہیں ہے۔ پاکستان ایک بہترین معاشی مستقبل کے لئے ٹیک آف کر چکا ہے اور جب ہم ایک خوشحال پاکستان کا سفر دیکھتے ہیں تو اس گاڑی کے چار پہیوں میں ہمیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان بھی اسی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نظر آنے چاہئیں جیسے کہ پنجاب اور سندھ۔

ان دونوں صوبوں کے عوام کے احساس محرومی کو وہاں کی قیادتیں ہی دور کر سکتی ہیں مگر اس میں محنت زیادہ لگتی ہے سو وہ آسان راستہ اختیار کرتے ہیں کہ پنجاب کو گالی دے لیتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کلاس میں فیل ہوجانے والا اپنی ناکامی کی ذمے داری فرسٹ آجانے والے پر عائد کر دے۔

میں اس سے پہلے ایک سے زائد کالموں میں لکھ چکا کہ مولانا فضل الرحمان گذشتہ برس کے انتخابات کے نتائج سے نالاں ہیں اور میری رائے میں مولانا کا شکوہ درست بھی ہے کہ انہوں نے دوستوں، کے لئے جو کچھ کیا اس کے جواب میں دوستوں، نے انہیں کچھ نہیں دیا۔ وہ اس وقت سے دوستوں کے ساتھ ہیں جب بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت ختم کی گئی تھی اور باپ، تشکیل دی گئی تھی اور پھراس کے بعد بھی مگر دوستوں، کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کو دیکھیں، مولانا کو بھرپور طریقے سے ان کے سیاسی جثے سے بڑھ کے ایڈجسٹ کیا گیا، خیبرپختونخوا ان کے پاس ہی تھا اور اگر وہ اس میں سیاسی اور انتخابی نتائج نہیں دے سکے تو اس کی شکایت ہم سے نہ کریں، ہم نے تو حق ادا کر دیا تھا، بہرحال، گلے شکوے دوستوں، سے ہی چلتے ہیں سو مولانا نے لفظی گولہ باری کرکے انتقام لے لیا مگر جب چھبیسویں آئینی ترمیم کا موقع آیا تو انہوں نے وہی کیا وہ ریاست اور قوم کے عین مفاد میں تھا۔

حکومت آئینی عدالت بنانا چاہتی تھی اور مولانا نے حکومت کا منصوبہ ناکام کر دیا مگر اس کے ساتھ ہی آئینی بینچ بھی بن گیا اور چیف جسٹس کی تقرری بھی عین اس طرح ہوگئی جس طرح حکومت چاہتی تھی اور اب مولا نا نے دوسرا احسان دہشتگردی کے حوالے سے اپنے موقف میں کیا ہے اور ان کا یہ احسان صرف حکومت اور فوج پر نہیں بلکہ پوری قوم پر ہے جو دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحما ن ہی وہ شخصیت ہیں جو جرائم اور دہشتگردی کے اتحاد کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔ اگر ہم خیبرپختونخوا سمیت ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کو دیکھیں تو یہ ہمیں ہزارہ بیلٹ یعنی ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، کوہستان سے آگے بڑھ کے گلگت ہنزہ تک میں اس طرح نظر نہیں آتی جس طرح یہ وزیرستان اوربنوں سمیت ان تمام علاقوں میں ہے جہاں ہر روز خود کش دھماکے ہو رہے ہیں۔ یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے اس پوری مزاحمت کے پیچھے وہ سمگلرز ہیں جو سرحدوں سے بغیر کسی روک ٹوک کے نقل و حمل چاہتے ہیں مگر آج کے جدید ریاستی دور میں یہ ممکن نہیں۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے آپ لاکھ اختلاف کر لیں مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ انہوں نے سمگلنگ مافیا کو نتھ ڈال دی ہے اور پراپرٹی مافیا کو اپنے دفاتر سے نکال باہر کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ملک ریاض جیسے ٹائیکون کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ اب اصل حل یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر اسی طرح کا ایک آپریشن ہو جیسے کبھی میاں نوازشریف نے کراچی میں کیا یا صدر زرداری نے سوات میں اور اسی طرح میاں نواز شریف نے اپنے تیسرے دور میں آپریشن ضرب عضب کرکے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا مگر عمران خان انہیں پھر واپس لے آیا۔

اس وقت اچکزئی سے ماہرنگ تک سب قوم پرست آپریشن کے خلاف ہیں اور علی امین گنڈا پور بھی جو کہ خیبرپختونخوا میں دس ہزار دہشت گردوں کی موجودگی بھی مانتا ہے اور ان کے خلاف آپریشن کی راہ میں رکاوٹ بھی بن رہا ہے۔ جب دہشتگردوں نے وہ مدرسہ تک نہیں چھوڑا جسے طالبان کا باپ کہا جاتا تھا تو پھر وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ دہشت گردی کی اس آگ سے ابھی تک پی ٹی آئی کے رہنما بوجوہ بچے ہوئے ہیں مگر ان کے سوا کوئی محفوظ نہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان سے امیدیں ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی محاذ کی جرات مندانہ قیاد ت کر سکتے ہیں، ایک پر امن اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

Check Also

Imran Khan Ki Rehai Mumkin Hai?

By Najam Wali Khan