میاں اظہر، کچھ یادیں کچھ باتیں

میاں محمد اظہر شائد وہ واحد سیاستدان ہیں جن سے میری ملاقات میرے صحافت میں آنے سے پہلے ہوئی۔ وہ بطور لارڈ مئیر ہمارے علاقے میں کسی منصوبے کا افتتاح کرنے آئے تھے اوراس کے بعد جب میں کالج کے پراکٹوریل بورڈ کا رکن تھا تب ان سے وہاں ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ گروپ فوٹو آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔
مجھے کہنے میں عار نہیں کہ میاں اظہر ایک بھلے آدمی تھے، ایک شریف النفس سیاستدان۔ وہ ان میں سے ایک تھے جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشل لا سے پہلے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کا ساتھ چھوڑا تھا۔ سنت نگر میں میاں اجو کے ڈیرے سے ان کے گارڈن ٹاؤن والے گھر تک بہت سیاسی میلے لگے۔ جب وہ صوبائی دارالحکومت کے لارڈ مئیر رہے تو انہوں نے جس طرح تجاوزات کا خاتمہ کیا اس کا عکس اب مریم نواز کی کوششوں میں نظر آتا ہے۔
میں نے ان کے دور میں لاہور کی سڑکوں کو اچانک بہت کھلا ہوتے ہوئے دیکھا، میں نے بیڈن روڈ پر چمن کے سامنے آئس کریم کی اس دکان کو بھی منہدم ہوتے ہوئے دیکھا جو مبینہ طور پر میاں نواز شریف کے ماموں کی تھی، میاں اظہر نے اسے گروا دیا اور میاں نواز شریف نے اس پر کسی ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔ میاں اظہر لاہور کے لارڈ مئیر کے بعد میاں نواز شریف کی طرف سے پنجاب کے گورنر بنا دئیے گئے۔
کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف پہلی مرتبہ میاں اظہر سے اس وقت ناراض ہوئے جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور میاں اظہر اپنا بوریا بستر اٹھا کے گورنر ہاؤس سے چلے آئے۔ میاں نواز شریف کا موقف تھا کہ میاں اظہر کو یہ محاذ خالی نہیں چھوڑنا چاہئے تھا اور اس وقت تک گورنر ہاؤس میں رہنا چاہئے تھا جب تک ان کو برطرف نہ کیا جاتا مگر میاں اظہر کا موقف تھا کہ جس حکومت نے مجھے گورنر لگایا وہی نہیں رہی تو میں گورنر ہاؤس کیسے رہتا؟
اسی گورنری کا ایک اور واقعہ نارنگ منڈی سائیڈ پر گورنر ہاؤس کے حکم پرایک پولیس آپریشن تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخورہ کی طرح جی ٹی روڈ کے دوسری سائیڈ کا یعنی نارووال والا علاقہ بھی نوگو ایریا بنتا جا رہا تھا۔ اس پولیس آپریشن نے مسلم لیگ کے کچھ طاقتور رہنماؤں کو سخت مشکل میں ڈال دیا کیونکہ وہاں ان کے ووٹرز سپورٹرز اس سے متاثر ہو رہے تھے۔ اسی جگہ پر میاں اظہر کا اپنا بھی فارم ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے شکایت کی بلکہ اپنے ساتھ رانا برادر ی کے ان رہنماؤں کو لے کربھی گئے اور بعد میں انہی شخصیات نے میاں اظہر کو مسلم لیگ نون سے نکالنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا مگر یہ بہت بعد کی بات ہے اس سے پہلے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا تھا۔
میاں محمد اظہر، میاں نواز شریف کی دوتہائی اکثریت والی حکومت کے خلاف ورکرز گروپ بنا چکے تھے۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی لاہور اور پنجاب میں کمزور ہوچکی تھی لہٰذا نہر کے سامنے، ایف سی کالج والے چوک پر ان کی کوٹھی میں کارکنوں کی محفلیں لگتی تھیں اور پھر وہ محفلیں چھوٹے چھوٹے جلسوں میں بدلنے لگیں جن میں میاں محمود، میاں ندیم ہوتے یا شیر شاہدرہ کہلانے والے چوہدری واحد وغیرہ۔
میاں اظہر کی ایک طاقت اور پہچان آرائیں برادری بھی تھی سو لاہور کے بہت سارے آرائیں ان کے ساتھ ہوئے جیسے میاں محمد منیر۔ اس زمانے میں الیکٹرانک میڈیا تو ہوتا نہیں تھا او رمسلم لیگ نون کے لئے سب سے بڑا اور طاقتور اخبار نوائے وقت ہوتا تھا جس میں ان جلسوں کی کوریج بھرپور ہوتی۔ نواز حکومت میں اکاموڈیٹ نہ ہونے والے بہت سارے کارکن میاں اظہر کے گھر جمع ہوجاتے اور پھر نعرے بازی شروع ہوجاتی۔ نعرے آج والے ہی تھے کہ کارکنوں کو عزت دو یا مہنگائی ختم کرو۔ میں بطور صحافی جانتا ہوں کہ میاں اظہر کے اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطے ہو گئے۔ اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کارگل کر رہی تھی اور واجپائی کے آنے پر سخت ناراض تھی سو قاف لیگ بنی تو میاں اظہر اس کے صدر بن گئے مگر افسوس وہ بھی کارکنوں کو اکاموڈیٹ نہ کرا سکے۔
میاں اظہر کارکنوں کو اکاموڈیٹ کراتے بھی کیسے؟ مجھے آج تک یاد ہے کہ پرویز مشرف نے جو انتخابات کرائے ان میں لاہور کے سرحدی حلقے سے قاف لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ہروا دیا گیا۔ میں ایک اخبار کے چیف رپورٹر کے طور پر الیکشن کی کوریج کرتے ہوئے شہر میں گھوم پھر رہا تھا اور میرے موبائل فون پر یہ اطلاع حیران کن تھی اورمجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ نے میاں اظہر کو استعمال کرنے کے بعدفارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میاں اظہر نواز لیگ چھوڑنے کے بعد سنت نگر سے لیگی کارکن الیاس خان سے بھی الیکشن ہارے جو محض کونسلر تھا۔ قاف لیگ مکمل طور پرچوہدری برادران کے ہاتھ میں آ گئی اوراس کے بعد میاں اظہر کی سیاسی سرگرمیاں بہت محدود ہو کر رہ گئیں۔ میاں اظہر نے الیکشن سے پہلے ہم صحافیوں کو آواری میں ایک کھانا دیا تھا اور اس میں میرا ہی سوال تھا کہ آپ پرویز مشرف کو کیا دے سکتے ہیں تو میاں اظہر کا جواب تھا ہم پرویز مشرف کو آئینی اور قانونی جواز دے سکتے ہیں۔
خورشید قصوری اور مہناز رفیع وغیرہ ان کے ساتھ بہت دیر تک رہے مگر وہ بھی کیا کر سکتے تھے کہ سیاست بہت ظالم کھیل ہے جس میں کوئی کسی دوسرے کی خاطر نہیں رُکتا۔ میاں اظہر کو نیوٹرلائزڈ کر دیا گیا اور سیاسی کھیل چودھری برادران کے ہاتھ میں آگیا۔ چوہدری پرویز الٰہی قاف لیگ کے پنجاب کے صدرا ور چوہدری شجاعت حسین مرکزی صدر بن گئے۔ اس کے بعد شاذو نادر ہی میاں اظہر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے سیاست اپنے بیٹے حماد اظہر کے حوالے کر دی جو اینٹی نواز شریف ہی رہی۔
حماد اظہر کو آج کئی برس کے بعد میں نے میاں اظہر صاحب کے جنازے میں دیکھا۔ میں اس نوجوان کو پی ٹی آئی حکومت میں وزارت اعلیٰ کے لئے ایک حقیقی چہرہ اور امیدوار سمجھتا تھا مگر وہ بہرحال وفاقی وزارت خزانہ تک پہنچے جو چھوٹی کامیابی نہیں۔ اس وقت وہ ایک ہارے ہوئے گروہ میں ہیں۔ ان پر نو مئی کے مقدمات بھی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ نو مئی ناقابل معافی واقعہ ہے مگراس کے باوجود میں نے انہیں والد کی نماز جنازہ پڑھتے اور کندھا دیتے ہوئے دیکھا۔ دُور دُور تک کوئی پولیس تھی نہ پکڑو پکڑو کا شور۔
میں نے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف اور سعد بھائی سمیت بہت ساروں کے تعزیتی پیغامات دیکھے۔ مریم اورنگزیب میاں اظہر کے گھر گئیں اور اپنی پارٹی کی نمائندگی کی۔ نماز جنازہ میں صوبائی وزیر فیصل کھوکھر، اسد اشرف سمیت بہت سارے لیگیوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ میں لاہور کے کور کمانڈر کا نام نہیں جانتا مگر وزیراعلیٰ مریم نواز کے ساتھ ان کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ایک بیٹے کو باپ کی نماز جنازہ پڑھنے دی۔ میں مسلم لیگ نون کی حمایت کرتا ہوں تو اسی اخلاقیات کی وجہ سے کرتا ہوں۔

