Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Mian Amir Mehmood Se Mulaqat

Mian Amir Mehmood Se Mulaqat

میاں عامر محمود سے ملاقات

یہ ایپ سیپ، سپرئیر گروپ اور نئی بات میڈیا گروپ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان کی رہائش گاہ پر ایک شاندار ظہرانے پر ہونے والی ملاقات تھی جس میں دنیا گروپ اور پنجاب گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود ملک میں گورننس کی بہتری اور عوام کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے چار کی بجائے بتیس، تینتیس صوبوں کے حوالے سے پورا فلسفہ بیان کر رہے تھے۔

ان کے پاس اپنے موقف کی حمایت میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے اعداد و شمار بھی موجود تھے اور سینئر صحافیوں کے سخت سوالات کے جواب بھی، سب سے سخت سوال یہی تھا کہ آپ صوبوں کی یہ تجویز کیا اُن، کے کہنے پر پیش کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ اس پر آج سے نہیں آج سے پندرہ برس پہلے سے بات کر رہے ہیں اور کوئی پانچ، چھ برس پہلے انہوں نے اسے باقاعدہ کتابی شکل میں بھی مرتب کر دیا تھا۔

اعداد و شمار اور دلائل سے بھری وہ سبز ٹائٹل والی وہ کتاب ہم سب کے سامنے موجود تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ کوئی نئی بات نہیں کر رہے بلکہ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس مدعے پر انہوں نے پاکستان کی بڑی طاقتور سیاسی شخصیت کے ساتھ کئی گھنٹے طویل ملاقات کی تھی اور وہ آخر کار ان کے ساتھ گورننس کے اس ماڈل پر متفق ہو گئے تھے مگر اس کی شرط کیا تھی وہ انہوں نے اس پوری گفتگو کے ساتھ ہی آف دی ریکارڈ کر دی سو اسے اب میاں عامر محمود خود ہی آن دی ریکارڈ لا سکتے ہیں یا بڑے بھائی سلمان غنی، بہرحال، یہ ان کی یہ دلیل دلچسپ تھی اور ازراہ تفنن دہرا بھی دیتا ہوں کہ کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ آپ کے دروازے کے باہر ایک نہیں بلکہ پنجاب سے ہی چھ، سات وزراء اعلیٰ بیٹھے ہوں؟

میں اصولی طور پر میاں عامر محمود کی تجویز سے سو فیصد متفق ہوں اور اپنے دلائل پر ابھی چند ہفتے قبل ہی نہیں بلکہ 2019 میں ہی ایک کالم بھی لکھ چکا ہوں جو فروری کی آخری یا مارچ کی پہلی تاریخوں میں شائع ہوا تھا مگر بطور صحافی آپ جس شے کے قائل بھی ہوں اس پر بھی سوال کرتے ہیں، سو میرا سوال تھا کہ اس پر پیپلزپارٹی کیسے مانے گی وہ تو سندھ کی تقسیم کے نام پر ہی شدید غصے میں آ جاتے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی بجائے عوام کو بتانے اور منانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جب عوام جان اور مان جائیں گے تو اس کے بعد سیاسی جماعتیں خود بخود مان جائیں گی۔

میں جانتا ہوں کہ ہمارا سیاسی نظام اسی قسم کا ہے جس میں گھوڑا گاڑی کو نہیں بلکہ گاڑی گھوڑے کو کھینچتی ہے۔ ان سے یہ بھی سوال تھا عوام تو مان جائیں گے مگر سیاسی رہنما اور خاندان کیوں مانیں گے تو اس کا جواب تھا کہ جب سیاسی خاندانوں کو پتا چلے گا کہ وہ جس وزارت اعلیٰ تک ساری عمر نہیں پہنچ سکتے اوراس کے لئے اگر سندھ میں چھ اور پنجاب میں نو چھوٹے چھوٹے صوبے بن جاتے ہیں تو یہاں کم از کم تیس خاندان وزارت اعلیٰ کے حقدار ہو جائیں گے سو یہ ان کے مفاد میں ہے، ہاں، اس سوال کے جواب کا کچھ حصہ تو رہ ہی گیا کہ کیا آپ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر یہ نظام پیش کر رہے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ ان کی اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی بڑے یا چھوٹے بندے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ ویسے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ نظام عوام ہی نہیں حکومت اور فوج کو بھی سوٹ کرتا ہے کہ ہم افغانستان کی سرحد سے جڑے چند ضلعوں کی صورتحال کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی بدترین صورتحال سمجھتے ہیں۔

میاں عامر محمود نے پاکستان کے کونے کونے میں چار ہزار کالجز اور تین یونیورسٹیاں دی ہیں۔ ہم بنیادی طور پر ہر کامیاب شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اگر میاں عامر محمود کسی مہذب اور جدید ریاست میں ہوتے تو یقینی طور پر انہیں لیجنڈ کا درجہ دیا جا رہا ہوتا کہ وہ صرف ملازمتیں ہی نہیں بلکہ تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ نئے نئے آئیڈیا ہمیشہ جامعات کی تحقیق اور انٹیلی جنشیا کی طرف سے ہی آتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میاں عامر محمود نے گورننس کا یہ نیا نظام پیش کرکے قومی حق ادا کر دیا ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ پرویز مشرف کا ضلعی حکومتوں کا نظام اس کا متبادل نہیں کہ ہم اتنی بڑی تبدیلی کی بجائے اسے نافذ کر دیں تو جواب تھا کہ ان سے بہتر اس نظام کو کون جانتا ہے لیکن جب تک صوبوں کا موجودہ نظام موجو د ہے تب تک ضلعی نظام بھی نہیں چل سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی اسمبلیاں قائم ہونے کے بعد صرف پنجاب میں ضلعی حکومتوں کے نظام میں ننانوے ترامیم کی گئیں جن کے ذریعے ضلعی ناظمین کے اختیارات صوبائی حکومت، وزیروں مشیروں اور بیوروکریسی کو دئیے گئے اور جب انہوں نے اس پر پرویز مشرف سے بات کی تو انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا کیونکہ اس کے بعد ان کا حلقہ انتخاب وہ اسمبلیاں ہوگئی تھیں، ضلعی حکومتیں نہیں رہی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس تجویز کے پیچھے ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے تو ان کا جواب تھا کہ اگر میں اس کے بعد آپ سے ووٹ مانگوں تو مجھے ہرگز مت دیجئے گا۔

دو سوال اہم تھے کہ جب چار کی بجائے اتنے زیادہ صوبے بن جائیں گے تو ان کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں گے اور کیا ہر ڈویژن میں صوبہ بننے کے بعد انتظامی اخراجات بڑھ نہیں جائیں گے کہ وہاں بیوروکریسی کا بھی سیلاب آ جائے گا تو اس کا جواب تھا کہ وفاق جس طرح پہلے صوبوں کو فنڈز دیتا ہے اسی طرح دے گا اور جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تو اس میں اضافے کی بجائے کمی ہوگی کیونکہ آر پی او ہی آئی جی اور کمشنر ہی چیف سیکرٹری بن جائے گا جو لوگوں کی رسائی میں بھی ہوگا دوسرا سوال تھا کہ صوبوں کے یہ نام باقی رہیں گے تو جواب تھا کہ نہیں۔

اس کے بعد لاہور ایک الگ صوبہ ہوگا اور گوجرانوالہ ایک الک، کراچی ایک الگ صوبہ ہوگا اور حیدر آباد ایک الگ اور یہ لوگوں کے لیے زیادہ پہچان اور عزت والا ہوگا۔ ان کے پاس انڈیا سے کینیڈا اور آسٹریلیا تک کی مثالیں موجود ہیں جہاں نئے صوبے بنے اور چونکہ وہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں تو ان کے پاس اعداد و شمار موجود ہیں کہ کس ضلعے میں تعلیم اور صحت جیسی سہولتوں کی کیا صورتحال ہے۔

مجھ سے آپ اس بحث کو سمٹوائیں تو میں یہی کہوں گا کہ چار صوبوں کے اس نظام سے ہمیں صرف نفرتیں، کدورتیں، الزامات اور دوریاں ہی دی ہیں۔ مجھے کسی نے کہا کہ صوبے ختم نہ کریں، پاکستان صوبوں نے ہی بنایا، میرا جواب تھا ہرگز نہیں، پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا اور صوبائیت جیسے تعصب سے بالاتر ہو کے بنایا تھا، کیا دلی اور کلکتہ کے مسلمانوں کو علم نہیں تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بن رہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan