Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Maeeshat Ki Behtari Ka Ghareebon Ko Faida?

Maeeshat Ki Behtari Ka Ghareebon Ko Faida?

معیشت کی بہتری کا غریبوں کو فائدہ؟

یہ ایک عمومی سوال ہے جو معیشت کی بہتری کے اشاریوں کی نفی کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جب یہ بات ہوتی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ چودہ برس بعد سرپلس ہوگیا، مہنگائی بڑھنے کی شرح 40فیصد سے کم ہو کر 4فیصد پر آ گئی، شرح سود 23فیصد سے کم ہو کے 11فیصد ہوگئی اور ابھی اس میں مزید کمی کی گنجائش ہے، جی ڈی پی (یعنی مجموعی قومی دولت) جو 280ارب ڈالر تک گر گئی تھی وہ 400ارب ڈالرکو کراس کر گئی، ترسیلات زر میں ریکارڈ بڑھوتری اور فی کس آمدن میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے، زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 20ارب ڈالر سے بڑھ گئے اور سب سے بڑھ کے سٹاک مارکیٹ جس طرح بڑی بڑی چھلانگیں لگا رہی ہے، وہ سٹاک مارکیٹ جو عمران خان کے دور میں 56ہزار پوائنٹس سے 29ہزار پوائنٹس تک نیچے گر گئی تھی اس وقت بہت تیزی کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ پوائنٹس کی طرف رواں دواں ہے جو سرمایہ کاروں کے حکومت کے اقدامات اور معیشت کی بہتری جانچنے کا سب سے بہترین آلہ ہے۔

ان اعداد و شمار کو جعلی کہنے والی کھسیانی بلیاں ہیں جو کھمبا نوچ رہی ہیں اوریہ سوال صرف اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ حکومت کو کریڈٹ لینے سے روکا جاسکے۔ کبھی پٹرول میں پانچ روپے اضافے کو ایشو بنایا جاتا ہے اور کبھی چینی کے بحران کو جس میں وہی کھیل کھیلا گیا ہے جو ایوب خان کے دور سے کھیلا جا رہا ہے۔ میں پٹرول کی قیمت بارے کہہ سکتا ہوں کہ جو حکومت اسے 332روپے لیٹر سے واپس 247روپے لیٹر پر لائی تھی وہ اس قیمت کو دوبارہ کم کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔

جہاں تک چینی کا معاملہ ہے حکومت نے اس پر چینی ایکسپورٹ کرنے کا کریڈٹ لیا جو اس سے پہلے سمگل ہوجاتی تھی، اب اس سے باقاعدہ طور پر ملک و قوم کے خزانے میں ڈالر لائے گئے مگر میرا اس کے باوجود حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ آئندہ سرپلس ذخائر کے نام پر چینی مافیا کے اعداد و شمار سے ہرگز متاثر نہ ہو۔ ایک سیاسی حکومت کو اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ اس کے ذریعے کمانے والے چند لوگ ہیں۔ مان لیجئے، جہاں بہت کچھ اچھا ہو رہا ہو وہاں کوئی نہ کوئی غلطی بھی ہوجاتی ہے مگر موازنہ یہ ہے کہ اچھا زیادہ ہو رہا ہے یا غلطیاں زیادہ۔

میں بطور صحافی جانتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف اسی طرح کام کر رہے ہیں جس طرح وہ بطور وزیراعلیٰ کرتے تھے یعنی چوبیس گھنٹوں میں چھبیس گھنٹوں کا کام اور یہی وجہ ہے کہ سفارتی محاذ ہو یا معاشی ہر جگہ کامیابیاں مل رہی ہیں۔ وہ ہر سوموار کے روز ایف بی آر کی اصلاحات پر خود میٹنگ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک کو یا تو قرضوں پر چلایا جا سکتا ہے یا ٹیکسوں پر، ملک چلانے کے لئے کوئی تیسرا ذریعہ نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان دور میں آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کے بعد عالمی اداروں ہی نہیں ہمارے دوستوں نے بھی ہم پر اعتماد کرنا بند کر دیا تھا مگر الحمد للہ، اس صورتحال کو مکمل طور پر بدل دیا گیا ہے مگر کیا یہ وقت نہیں ہے کہ ہم قرضوں سے وصولیوں کی طرف آئیں، اپنے ملک کو اپنے وسائل سے چلائیں۔ ایف بی آر میں بڑی اصلاحات ہو رہی ہیں اور اب بھی بڑی ساختی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جیسے کسٹمز میں فیس لیس اور آٹومیٹڈ سسٹم۔ ٹیکس کی وصولی کے لیے سختی مگراس پر تاجروں کو اعتمادمیں لے کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ اگر سٹاک مارکیٹ بڑھ رہی ہے تو اس کا غریبوں کا کیا فائدہ ہے تواس کا جواب سماجی اور معاشی ماہرین ایک عمومی مثال سے دیتے ہیں کہ مچھلی سب سے پہلے سر سے گلنے لگتی ہے اور اگر اس میں بہتری ہوگی تو سب سے پہلے اوپر ہی ہوگی۔ اگر ہمارے حکمران اچھے ہوں گے تو ہمارے افسر بھی اچھے ہوجائیں گے۔ معیشت کو ٹارگٹ کرکے بات کرتے ہیں کہ اگر سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کو منافع ہو رہا ہے تو اس کا فائدہ ان تمام لوگوں کو ہے جو ان کی فیکٹری سے براہ راست اور بالواسطہ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس منافع کو کہیں نہ کہیں استعمال کریں گے یعنی نئی فیکٹری لگا لیں گے یا اس سے سیرو تفریح کر لیں گے اور دونوں صورتوں میں وہ روپے کی گردش میں اضافہ کریں گے۔

ان کا کمایا ہوا یہ روپیہ اس مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی جیب میں جائے گا جو ان کے لئے خدمات سرانجام دے رہی ہوگی۔ اس مثال کو معکوس کرکے سمجھیں کہ اگر کسی سرمایہ داراور سرمایہ کار کو نقصان ہوگا تو وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں روکے گا اور پھر ان کی چھانٹی کرے جس سے مشکلات اور بے روزگاری بڑھے گی جیسے عمران اور کورونا کے دور میں ہو رہا تھا۔ اس بات کو ریمی ٹینسز پر لاگو کر لیجئے کہ ملک کو تو آٹھ ارب ڈالر مزید مل ہی گئے مگر اس کے ساتھ ہی بنیادی طور پر یہ رقم ان تمام گھرانوں کو ملی جن کے پیارے دیار غیر میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ یہ ایک برس کے آٹھ ارب ڈالر، آئی ایم ایف کے تین برس کے چھ ارب ڈالر سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ شرح سود کم ہوگی تو کاروبار کرنے کے لئے قرض لئے جا سکیں گے اور ان کاروباروں سے روزگار بڑھے گا، لوگوں کو ان سے پیسے ملیں گے اورا ن سے خوشحالی۔

اچھی حکومتیں ایسی تمام بہتری کواپنی مینجمنٹ کے ذریعے عوام تک لانے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں جیسے شہباز شریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے پنجاب کو جس طرح میٹروز دیں وہ بنیادی طور پراسی ترقی اور خوشحالی کی مظہر ہیں جس کی ہم یورپ وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ ایک بات دہرا دوں جو میں اکثر کہتا ہوں کہ ہم یورپ کی مثالیں دیتے ہیں مگر کیا یورپ کے حکمران اپنی جیب سے تمام سہولتیں دیتے ہیں یا اس کے لئے ٹیکس لیتے ہیں۔

عملی طور پریورپی ممالک اپنے شہریوں سے جی ڈی پی کا چالیس فیصد تک ٹیکس لے رہے ہیں اور ہم دس فیصد، ہم ایک چوتھائی ٹیکس دیں گے تو ایک چوتھائی سہولتیں ہی لیں گے۔ آخرمیں ایک بنیادی بات بھی دہرا دوں کہ ملک جتنا مرضی خوشحال ہوجائے آپ کو وہی کچھ ملے گا جس کے لئے آپ کوشش کریں گے بصورت دیگر آپ کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی ہے مگراس پر بھی بہت ساری قدغنیں لگ چکی ہیں۔

ایک اہم بات، پاکستان اسی وقت آگے بڑھ سکتا ہے اگراس کی سیاسی، عدالتی اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی رہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی نیت میں فتور آجائے، ڈبل کراسنگ شرو ع ہوجائے یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی وہی مہم جو ستر برس سے جاری رہی تو پھر تباہی ہی مچتی ہے۔ جب تک ہمارے بڑے آئین کے تابع رہیں گے اور ملکی استحکام کے لئے متحد، سب محفوظ رہیں گے، عوام سمیت سب ترقی کرتے رہیں گے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan