جاتی امرا یا جیل؟
شہباز شریف نے نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کیا تو ایک اخبار نے شہ سرخی لگائی، جاتی امرا یا جیل۔ قانونی اور سیاسی حوالے سے یہ سوال دلچسپ ہے اور بہت سارے لوگ اس کا جواب بھی جاننا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک جٹکا، جواب یہ ہے کہ نواز شریف اپنی پارٹی کی مقبولیت کی قربانی دے کر اس لئے نہیں آ رہے کہ جیل کی چکی پیسیں اور حالات و واقعات کے تناظر میں جس روز وطن واپسی کا اعلان ہو رہا ہو اور اسی روز فواد حسن فواد وفاقی وزیر بھی بن رہے ہوں تو اس میں سیاسی تجزیہ نگاروں کے لئے بہت ساری نشانیاں ہیں، اگر وہ عقل اور فہم رکھتے ہوں۔
شہباز شریف لندن پہنچے ہیں اور یہ اعلان بھی انہوں نے ہی کیا ہے۔ شہباز شریف کو ایک مرتبہ پھر خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بھائی اور خاندان کے وفادار ہیں۔ میں ربع صدی سے بھی زائد کے اپنے صحافتی تجربے کی بنیا د پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت شہباز شریف کے دوبارہ وزیراعظم بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ صورتحال اتنی واضح ہے کہ مقتدر حلقوں کی حلیف پیپلزپارٹی بھی کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اس کے لئے لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے نوے روز میں انتخابات کے لئے دباو میں اضافہ حالانکہ نئی مردم شماری پر انتخابات کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کے جس اجلاس میں منظوری دی گئی تھی اس کے میٹنگ منٹس پر ان کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی انگوٹھا لگا کے آئے تھے۔
تفصیل میں جانے سے پہلے ذرا منظرنامہ کلئیر کر لیجئے۔ وفاقی حکومت کے اقتدار کے کھیل میں تین ہی پلئیر ہیں۔ ایک مسلم لیگ نون ہے جس میں شہباز شریف کلئیر ہیں مگر وہ چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو بھی کلئیر کروا لیں۔ شہباز شریف اپنے بھائی کی قیادت میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ ہرگز وہ کام نہیں کرنا چاہتے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ کیا تھا یا چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے کزن اور بہنوئی چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ۔ ہم یہ باتیں پرویز مشرف کے مارشل لا کے آغاز سے ہی سن رہے ہیں کہ نون سے شین نکل رہی ہے مگرنون سے شین نکالنے والے شیخ رشید اور پرویز الٰہی سمیت نجانے خود کہاں کہاں سے نکل گئے مگر نون سے نہ کوئی شین نکلی اور نہ کوئی میم نکلی۔
دوسری کھلاڑی پیپلزپارٹی ہے جس کی فرسٹریشن آپ کے سامنے ہے۔ اگر وہ کلئیرہوتے تو اس وقت بلاول بھٹو زرداری کے بیانات یہ ہرگز نہ ہوتے جو ہیں۔ تشویش کا شکار آصف علی زرداری بھی ہیں مگر وہ بلائنڈ کھیلنا نہیں چاہتے سو وہ دانشمندی کے ساتھ پتے کھیل رہے ہیں۔ اس وقت تک کی صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو سندھ کی حکومت کی قیمت پر ہی معاملہ طے کرنا پڑے گا کیونکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق جو بہت سارے کریک ڈاون ہو رہے ہیں ان میں پیپلزپارٹی کے بہت سارے لوگوں کے رگڑے جانے کی اطلاعات آر ہی ہیں۔ پیپلزپارٹی اس صورتحال سے خوش نہیں ہے۔ اس کی طر ف سے اشارے دئیے جا رہے ہیں وہ پی ٹی آئی کے ٹرک پر جا کے چڑھ سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کیا پیپلزپارٹی مقتدر حلقوں کو اس کے ذریعے بلیک میل کر پائے گی۔
آصف زرداری کی بارگیننگ پاور بہت زیادہ سمجھی جاتی ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ڈیل کر تے ہیں۔ تیسری کھلاڑی پی ٹی آئی ہے جس کو زعم ہے کہ وہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت لے سکتی ہے۔ مجھے یاد کروانے دیجئے کہ میاں نواز شریف کو بھی پانچ برس پہلے جولائی کے مہینے میں کہا گیا تھا کہ آپ بیٹی کے ساتھ لاہور اتر آئیں۔ قوم آپ کا تاریخی استقبال ہی نہیں کرے گی بلکہ آپ کو گرفتار کرنے والوں کو بھی روک لے گی۔ انہیں کہا گیا تھا کہ آپ کے ووٹوں کی صندوقچیوں میں اتنے ووٹ پڑیں گے کہ ان کے قفل ٹوٹ جائیں گے مگر پھر کیا ہوا؟
اب اصل مدعے پر آتے ہیں جو کالم کا عنوان بھی ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو تاحیات نااہل ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کے اندر سے تین ریفرنسوں کے بچے بھی نکالے گئے تھے جس کے عنوان بالترتیب العزیزیہ، ایون فیلڈ اور فلیگ شپ تھے۔ ان ریفرنسوں میں کوئی ایک سو تراسی سماعتیں ہوئی تھیں اور انہی پر نگران جج لگا کے من مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش کی گئی تھی مگر ان میں سے ایک ریفرنس فلیگ شپ پر تو نواز شریف بری ہوگئے تھے لہٰذا باقی دو رہ گئے۔
ایون فیلڈ ریفرنس لندن فلیٹوں بارے تھا جس میں نواز شریف کو دس سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا ہوئی تھی مگر نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران مریم نواز اور کیپٹن صفدر ہائیکور ٹ سے بری ہو گئے تھے جس کے بعد اس ریفرنس میں نواز شریف کی حیثیت واضح ہے اور ان کا معاملہ صرف اس لئے الگ ہوگیا تھا کہ وہ پیش نہیں ہورہے تھے، سو یہ بھی اب کوئی سنگین معاملہ نہیں ہے بلکہ میری نظر میں اب تو کوئی بھی سنگین معاملہ نہیں ہے کیونکہ سنگینی اب صرف عمران خان کے لئے ہے جو نومئی کے واقعات کے بعد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
العزیزیہ کیس میں ہی نواز شریف کی آٹھ ہفتوں کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور ہوئی تھی اور یہی وہ معاملہ ہے جس میں شہباز شریف نے پچاس روپے کا تاریخی اور مشہور زمانہ اشٹام بھی دیا تھا۔ نواز شریف اس وقت عمران خان کی کابینہ اور عدالت تک سب کی اجازت سے لندن گئے تھے اور بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس معاملے پر اپیل میں نواز شریف اشتہاری قرار دے دیا تھا۔ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ اشتہاری کی کوئی سزا نہیں ہے اور اس کا حل سرنڈر کر دینا ہے۔ نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں اور خود کو سرنڈر کر رہے ہیں تو ان کی عبوری حفاظتی ضمانت بھی منظور ہوسکتی ہے جیسے اسحاق ڈار کی ہوئی اور ان کی سزا بھی معطل ہوسکتی ہے جیسے عمران خان کی ہوئی۔
سچ کہیں تو اب تمام مقدمات میں اتنے کمزور پہلو ہیں کہ کوئی بھی آزاد اعلیٰ عدالت انہیں اٹھا کے فوری طور پر ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہے۔ اب رہ گئی بات تاحیات نااہلی کی تو وہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد پانچ سال تک محدود ہوگئی۔ ان کی نااہلی جولائی دو ہزار سترہ میں ہوئی اور وہ پچھلے برس جولائی میں ختم ہو چکی لہٰذا نواز شریف وطن واپس آسکتے اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کر سکتے ہیں۔
بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی نواز شریف واپس آ رہے ہیں تو مجھے ان سے کہنا ہے کہ نواز شریف ان کی سوچ سے زیادہ تدبر، تحمل، فہم ہی نہیں بلکہ اچھے مقدر کے مالک بھی ہیں۔ میں نے پہلے لکھا تھا کہ شہباز شریف نے برادران یوسف والی کہاوت الٹ کرکے دکھا دی ہے او رمجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی اگر وہ چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم بن جائیں۔ ماں باپ کے ایسے فرمانبردار کے لئے یہ اجر بھی بہت کم ہے۔ میرا گمان ہے پاکستان کے ایک مرتبہ پھر ٹیک آف کے لئے، نوازشریف ہوں یاشہباز شریف، قاضی فائز عیسی اور جنرل عاصم منیر کے ساتھ ایک بیسٹ کمبی نیشن بننے جا رہا ہے۔