انتخابات ملتوی ہونے والے ہیں؟
یقین کیجئے، وزیراعظم شہباز شریف کے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی کروانے کے بیان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بہت سارے سیاسی تجزیہ نگاروں کا پہلے سے خیال ہے کہ حکومت انتخابات کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اوران کے پاس اس حق میں کئی دلائل موجود ہیں جیسے ان کا ہائیپوتھیسز کہ حکومت عوام میں مقبول نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سارے سروے ہوچکے جن میں حکومت کی حکومت باالخصوص مسلم لیگ نون کی مقبولیت بہت کم آ رہی ہے۔
میں ان سرویز کے بارے نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ابھی یکم اگست کو جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو میں نے سوشل میڈیا پر نواز لیگ کے حامیوں کو اپنی پارٹی کے خلاف بولتے ہوئے دیکھا۔ پٹواریوں کے پاس وہ حوصلہ نہیں ہے جو یوتھیوں کے پاس تھا جس میں وہ کہتے تھے کہ پٹرول ہزار روپے لیٹر بھی ہوجائے تو وہ ووٹ خان کو ہی دیں گے۔ پٹواریوں کی پونے تین سو روپے لیٹر پر ہی چیخیں نکل گئی ہیں۔
دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ حکومت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں وہ الیکشن نہیں کروائے جو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نوے روز میں ہونے ضروری تھے۔ انہیں لاکھ سمجھایا جائے کہ بھائی لوگو، اگر ان صوبوں میں حکومتیں بن جاتیں تو ان کے بعدقومی اسمبلی کے انتخابات کی کوئی اہمیت نہ رہ جاتی۔
مسلم لیگ نون کی حکومت بنتی تو پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی حکومت بنتی تو مسلم لیگ نون پنجاب کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتیں، سو پیار ے دوستو، یہ حکومتیں ایک سازش کے تحت توڑی گئی تھیں تاکہ قومی اسمبلی تڑوانے کے لئے بلیک میلنگ کی جا سکے، وہ سازش ناکام اور بلیک میلنگ ٹھُس ہوگئی سو یہ نہ کوئی اہم معاملہ ہے اور نہ ہی کوئی دلیل کہ بھلا جرم بھی کوئی دلیل ہوا کرتا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ نئی مردم شماری کا اطلاق انتخابات کو کیسے التوا کاشکار کرے گا تواس کا جواب یہ ہے کہ جیسے ہی وزیراعظم کے اعلان کے مطابق مشترکا مفادات کی کونسل سے نئی مردم شماری کا اجرا ہوگاالیکشن کمیشن کے لئے اس کا اطلاق لازم ہوجائے گااور اس کے مطابق نئی حلقہ بندیاں بھی۔ الیکشن کمیشن آفیشئل مراسلوں میں اظہار کر چکا کہ اسے نئی حلقہ بندیوں کے لئے کم از کم تین سے چار ماہ درکارہوں گے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر ہم ان حلقہ بندیوں کے خلاف ٹریبونلز کی کارروائی کو بھی اسی مدت میں شما رکر لیں تو اس کے باوجود ان ٹریبونلز کے فیصلے بھی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوں گے یعنی وہ وقت الگ ہوگا۔ اعلیٰ عدالتیں ان حلقہ بندیوں پر اسٹے آرڈر جاری کر سکتی ہیں جو ان کا آئینی اور قانونی اختیار ہے۔ ماضی میں قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے تو نہیں مگر بلدیاتی اداروں کے انتخابات حلقہ بندیوں کے اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے برسوں التوا کا شکار رہے ہیں۔
اس کے علاوہ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 14 کے تحت ایک ایکشن پلان بھی انتخابات سے چار ماہ قبل تیار کرنا ضروری ہے جبکہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ مردم شماری کے بلاک کوڈز کی تعداد میں اضافے یا کمی اور مختلف اضلاع میں بلاکس کی حدود میں تبدیلی کے نتیجے میں انتخابی فہرستوں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہوگی۔
اب ہم نئی مردم شماری کے بعد دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی کیا صورتحال ہے، اس کی جنرل نشستیں یعنی جن پر باقاعدہ حلقوں میں انتخابات ہوتے ہیں وہ 266 رہ گئی ہیں اورمجموعی نشستیں 342سے کم ہو کے336، بلوچستان میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 14 سے بڑھ کر 16 ہوگئی ہے، خیبر پختونخوا میں 35 سے بڑھ کر 45، پنجاب کی 148 سے کم ہوکر 141 رہ گئی ہیں جبکہ سندھ کی 61 نشستوں کی تعداد برقرار ہے، وفاقی دارالحکومت کی ایک نشست بڑھ کر 3 ہوگئی ہے جبکہ فاٹا کی 12 نشستیں ختم ہوگئی ہیں۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نئے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی نشستیں تین سے بڑھا کر 4 کردی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 8 سے 10، پنجاب میں 35 سے کم کرکے 32 کردی گئی ہیں، سندھ کی 14 برقرار ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتی نشستوں کی تعداد 10 برقرار رکھی گئی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پنجاب کو آٹھ نشستوں کا نقصان ہوا ہے اور اہم امر یہ ہے کہ اس سے پچھلی مردم شمار ی میں بھی پنجاب کی نشستیں کم کی گئی تھیں جس پر پنجابی قوم پرستوں نے سوال پوچھا تھا کہ کیا خیبرپختونخوا کی مائیں زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں اور پنجاب کی عورتوں میں یہ صلاحیت کم ہوگئی ہے؟
یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ نقصان ہمیشہ پنجاب کا ہوتا ہے مگر شور ہمیشہ دوسرے صوبوں کی طرف سے مچایا جاتا ہے۔ پنجاب کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنی پگ نواز شریف کے سر پر رکھے یا چوہدری پرویز الٰہی کے سر پر، یہ سب وفاق کی سیاست کرتے ہیں اور پنجاب کو یتیم و لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ اس میں عمران خان اور عثمان بزدار جیسے کرداروں کی بات کرنا ہی حماقت ہے جن میں سے ایک نے پنجاب دشمنی کی سیاست کی اور دوسرے کی اہلیت ہی نہیں تھی کہ وہ لفظ مردم شماری بھی صحیح طرح سے ادا کرسکے۔
اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کتنے آگے جاسکتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ یہ مدت ایک سال تک بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر سوال کیا جاتا ہے کہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن بھی آجائیں گے اور اگر اسمبلیاں ہی موجود نہ ہوئیں تو سینیٹ کے الیکشن کیسے ہوں گے تواس کا جواب ہے کہ جہاں ستیا ناس ہو رہا ہو وہاں سوا ستیا ناس کا سوال نہیں کیا جا سکتا۔
ایک سوال اور بھی ہے کہ کیا مشترکہ مفادات کی کونسل میں پنجاب اورخیبرپختونخوا کی موجودہ نگران حکومتیں ایسے فیصلے کرسکتی ہیں جو اگلی مردم شمار ی تک پنجاب کی نمائندگی سے وسائل کی تقسیم تک پر اثرانداز ہوں تواس کا جواب یہ ہے کہ آئیڈیل سیچویشن تو یہی ہے کہ نگران حکومتوں کے پاس منتخب حکومتوں والے اختیارات نہ ہوں مگر حال ہی میں نگران حکومتوں کے بڑھے ہوئے اختیارات کاقانون اپنے اندر بہت سارے راز رکھ سکتا ہے جس کا عین وقت پر ہی پتا چلے گا۔
میں پنجاب کے حوالے سے محسن نقوی کی قیادت پر کوئی تحفظات نہیں رکھتا اور امید رکھتا ہوں کہ وہ پنجاب کا مقدمہ بھرپورطریقے سے لڑیں گے جیسے کوئی پنجاب کا بیٹا لڑ سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر مردم شماری ہی پنجاب کی نمائندگی اور وسائل میں کمی کو آئینی بنا دے تو وہ کیا کریں گے، کیا پنجاب کی قیادت، سندھیوں کی طرح اپنے صوبے کے لئے لڑ سکتی ہے؟
پہلے میر اخیا ل تھا کہ جیسے تیسے انتخابات کروا کے ایک منتخب حکومت قائم کروا لی جائے گی تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آئے مگر اب تازہ ترین صورتحال میں انتخابات کا فوری انعقاد مشکوک سے مشکوک ترین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک نگران سیٹ اپ آنے والا ہے جو طویل عرصے کے لئے ہو سکتا ہے۔
سیاسی قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں کہ کسی سیاسی بندے کو نگران وزیراعظم کی ذمے داری ملے مگر دوسری طرف سے معیشت کو اہمیت دی جار ہی ہے یوں ایک ماہر معیشت ٹائپ شخصیت سامنے آ سکتی ہے اور میری نظر میں اب تک بہت ساری ٹھوس وجوہات کی بناپر لیک سٹی اور اپٹما والے گوہر اعجاز ایک پوٹینشل امیدوار ہیں۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔